میں یہ آپ کے لئے لکھ رہی ہوں، جن سے میں ہمیشہ ڈرتی رہی ہوں۔ میں نے آپ کا احترام کیا لیکن واپسی میں آپ کی طرف سے کبھی احترام نہیں کیا گیا۔ میں وہ سب کچھ لکھنا چاہتی ہوں جو میں نہیں کہہ سکی۔ میں اس بے جان کاغذ پر لکھوں گی، جو مجھے امید ہے کہ ایک افغان خاتون کی برداشت ہو گی۔
میں اپنے بچپن کی ایک شکایت سے شروع کرنا چاہتی ہوں، جب آپ کا کھانے کا بہت بڑا حصہ تھا کیونکہ آپ ایک آدمی تھے اور آپ کو زیادہ طاقت کی ضرورت تھی، جب آپ اسکول جانا ہوتا تھا اور میں صرف ایک چھوٹی سی لڑکی تھی جو گھر میں رہتی تھی۔ جی ہاں، میں گھر میں رہتی تھی کیونکہ کچھ لوگ اپنی نظروں یا اپنے رویے کو کنٹرول نہیں کرسکتے تھے۔ وہ ہمارے ملک کی کامیاب خواتین کو دیکھتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی خواتین کے لئے بھی ایسا ہی نہیں کیا۔ آپ نے ایک جدید عورت کے سامنے ثقافت اور آزادی کے بارے میں بھی بات کی ہے، لیکن آپ یہ اپنی بہن کے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔
ہر بار میں تمہاری جنگلی اور پر تشدد مزاج کا نشانہ بنی، اور جب تمہارے ہاتھ مکا کی شکل احتیار کرتے ہیں میرے جسم کو مارنے کے لۓ، تو کاش تم جانتے ہوتے کہ میرا دماغ سفر کر رہا ہے اور میں کیا سوچ رہی ہوں۔ یہ غیر منصفانہ ہے کہ مجے باحیا ہونا ظروری ہے تاکہ تمہارے لیے کوئی غلطی ہو جائے، اور اس سے بھی زیادہ غیر منصفانہ بات یہ ہے کہ مجھے خاموشی سے بات کرنا اور ہنسنا پڑتا ہے تاکہ مجہے کوی اور نہ سن سکے، جبکہ آپ لوگ زور زور سے اپنے شیطانی اور ناقابل الفاظ بولتے ہیں۔ جتنا زور سے تم بولتے ہو اتنا آپ اپنی جوانی پو فخر محسوس کرتے ہو۔
اب میں تمہارے سے اپنے چہرے پڑے تھپڑوں کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں جو مجھے آپ سے موسول ہوے ہیں: وہ جو میری یاد میں بھی دردناک محسوس ہوتے ہے۔ تم نے مجھے تهپڑ مارے کیونکہ میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی۔ میں ایک عورت ہوں، ایک حساس چیز ہوں جسے محبت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے، ناکہ تشدد کی۔
میں ایک عورت ہوں، مجھے اپنے والد کے لئے ایک قابل بیٹی ہونا چاہیے، ماں کے لئے جنت کا باعث، اپنے بھائی کے لیے اسکی مستقبل کی بیوی تلاش کرنے میں مدد، مجھے اپنی بہن کی ساتھی اور اپنے شوہر کی مذہبی حمایتی ہونا چاہیے۔ مجہے ان سب پر فخر ہوگا، لیکن اپنی ہی ماں سے غیر منصفانہ تبصرے سننا مشکل ہے:”صرف اگر آپ ایک بیٹے ہوتے”۔
ایک افغان خاتون کے پاس بہت کوچھ ہہ کہنے کو لیکن اس نے بات کرنا کبھی نہیں سیکھا۔ انہوں نے خواتین کو ہمیشہ خاموش رہنے کا کہا ہے۔ انہیں کبھی نہیں روانا چاہئے، تشدد کے باوجود بھی، اور طرف صبر رکھنا چاہیے۔ صرف مردوں کو چلانا، مارا اور بے حد ہونے کی اجازت دی۔
میرے ملک میں ایک عورت آزاد نہیں ہے: انہيں فیصلہ کرے کی اجازت نہیں کہ کس طرح کے کپڑے پہننے ہیں یا کس سے شادی کرنی ہے۔ شادی کے دعوت نامہ پر اس کا نام لکھنا حرام ہے۔ اور بھی اداس حقیقت یہ ہے کہ مرنے کے بعد، کوئی بھی اسے اسکا اپنا نام نہیں دیتا۔ جنازہ کے اعلان میں، اسے اپنے شوہر یا اس کے بیٹے کے عنوان سے پھکارا جاتا ہے۔
میں ان لوگوں کے لئے لکھ رہی ہوں جو عورت کو معاشرے کی شرم اور جنسی طور پر مرد کو بہتر سمجتے ہیں۔ میں اپکی نظروں سے محروم ہوں کیونکہ ان کا یقین ہے کہ میں کہیں بھی ظاہر ہوں گی۔ تم مجھے اپنے حقوق سے محروم کیوں کر رہے بجائے کہ اپنی نظروں کنٹرول کریں؟ کیا یہ سب چیزیں آپ کی خود غرضی کا ثبوت نہیں ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کہ جس طرح کا سلوک آپ کرتے ہیں اسے دیکھنے کے لیے آپ کو دوسری نظر کی ضرورت ہے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اب ان تمام رکاوٹوں کو توڑنے کا وقت ہے جو میری زندگی کو محدود کر چکی ہیں؟ ان پڑه
عورت بننا بہت مشکل ہے، ایک ماں بننا، اور ان پڑه ماں بننا جو اپنے بچوں کی مدد نہیں کرسکتی اور اپنی دشواریوں کو نہیں سن سکتی۔ میں پڑھ سکتی تھی اگر آپ کی پچھلی نسل کی وراثت پرستی سے متعلق نظریات نے اس حق سے محروم نہیں کیا ہوتا تو۔ آپ نے مجھے بتایا کہ مجھے ہمیشہ ڈرنا چاہئے۔ تم نے مجھے کبھی نہیں کہا کہ ڈرو نہیں، اپنے ڈر کو دور کرنے کی کوشش کرو، نا انصافی کو قبول نہ کرنا، اپنے سر کو کبھی نہیں جھکانا، تم نے کبھی بھی یہ باتیں نہیں کہیں۔
ایک افغان خاتون اکیلی ہے؛ وہ اپنے اطمینان پر قابو پانے کے لیے کبھی کسی کی مدد ملنے کے لیے نہیں دیکھتی، کیونکہ وہ کسی پر اعتماد نہیں کرتی۔ وہ تھکی ہوی ہے لیکن وہ اپنی همدردی کے لئے کسی کو چاہتی۔ ایک افغان خاتون نے اپنی زندگی کو منتخب نہیں کیا لیکن اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے برباد کیا۔ میں شرمندہ محسوس کرتی ہوں کہ میرا ملک نا انصافی اور اپنی خواتین کے خلاف تشدد کے لئے مشہور ہے۔ میں فرخندہ کی وجہ سے مشہور ہوں جسے زندہ جلا دیا گیا اور رخسانہ جو اپنی مسکراہٹ کی وجہ سے موت کا شکار ہوگئی۔ مجھے اس ساکھ سے نفرت ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ مستقبل میں میری نسل کا کیا ہوگا۔
اپنے ملک کی ایک عورت کے طور پر، میں آپ کو اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کا کہتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن آپ بدلیں گے، اور. میں نے یہ کہا ہے کیونکہ میں آپ کے دماغ اور آنکھوں کو پڑھ سکتی ہوں۔ یہ میری طاقت ہے اور آپ اسے مجھ سے نہیں لے سکتے۔
اور آپ، میرے وطن کی خواتین، مجھے امید ہے کہ آپ کے ذہن کی طاقت آپ کو اس عذاب سے آزاد کرنے اور اپنے سر کو بلند کرنے کی اجازت دے گی۔
Add comment