یہ مضمون میرا ایک ذاتی تجربہ بیان کرتا ہے۔
میرا میگنیشیا کے علاقے، اور اس کے دارالحکومت وولوس کا بس میں سفر، چار گھنٹے جاری رہا۔ جیسے جیسے ہم قریب جاتے گئے، ویسے ویسے ہم گاؤں کے علاقوں میں گھیرتے گئے۔ جب تک ہم وہاں پہنچے اس وقت تک میں اپنے اردگرد کے مناظر کی خوبصورتی سے اس قدر سحر زدہ ہوگیا کہ میں یہ بھول ہی گیا کہ سفر نے کتنا تھکا دیا ہے۔
البتہ، بس میں سفر کے دوران میں نے کچھ پریشان کن چیز دیکھی کہ: کوڑا لوگ اپنی گاڑیوں سے باہر پھینک رہے تھے۔ دراصل، اس مہم کا مقصد ہی یہ تھا: سڑکوں اور آس پاس کے علاقوں سے کوڑے سے پاک کرنا۔ ہم نے یہ کام چار دن تک کیا، روزانہ پانچ گھنٹے کام کرتے۔
گرمی کے تیز دھوپ نے اس کام کو کافی مشکل بنادیا، لیکن قدرت کی قوت نے مجھے متحیر اور پرسکون کیا۔ میں اس مہم میں ایک رضاکار کی حیثیت سے شامل ہوا اور میں نے کچھ ایسی چیزیں سیکھیں جن پر میں نے پہلے کبھی غور نہیں کیا تھا۔
جمع کیے گئے کچرے کے 100 تھیلے 90٪ پلاسٹک، 5٪ کاغذ، 2٪ دھات اور 3٪ مختلف دیگر مواد پر مشتمل تھے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا سیارہ بہت آلودہ ہوچکا ہے۔ ہم جس چیز کو پھینک دیتے ہیں اس کا ایک بہت بڑا حصہ بایوڈیگ ریڈیبل نہیں ہوتا؛ چنانچہ، ہمارا سیارا کو آہستہ آہستہ تباہ ہو رہا ہے۔
اس نقصان کی اصل وجہ واضع طور پر اور محض ذیادہ سے ذیادہ چیزوں کا اسعتمال ہے اور لوگوں کا ان کے نتائج سے نظرانداز ہونا ہے۔
بدقسمتی سے، لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ان کے منفی اثرات سے لاعلم ہے۔کچھ ممالک میں، ان چیزوں کے اثرات کے بارے میں معلومات تک رسائی ہی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے اثرات کے بارے میں۔ ماحولیاتی تحفظ میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس کو سپورٹ کرنے والے اتنے لوگ نہیں ہیں کہ وہ مسئلے کو روکیں اور بالآخر اس کو کم کریں۔ ہمارا سیارہ ہر روز تباہی کی جا رہا ہے، اس کے باوجود کوئی بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دے رہا۔
اور یہ چیز ایک بہت ہی دلچسپ سوال پیدا کرتی ہے، خس کا مجھے خدشہ ہے: ذمہ دار کون ہے اور آنے والی نسلوں کے حقوق کا جوابدہ کون ہے؟
جہاں تک میرا تعلق ہے، ہمیں اس مسئلے پر توجہ دینی ہوگی، قدرت کے ساتھ ہم آہنگی بحال کرنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر ہم اگلی نسلوں کے لیے ایک مثال بن جائیں۔
Add comment