آفرن، روجاوا کی دولہن، یہ ایک کردش شہر ہے۔ جو کردش پیپل پروٹیکشن یونٹ کے زیراثر ہےاور یہ جنوبی شام میں ہے۔یا جیسا کہ کردش لوگ اس علاقے کو مغربی کردستان کہتے ہیں۔ شہر زیتون کے درختوں کے لئے مشہور ہے یہ 13 ملین سے زیادہ ہیں اور وہ اسے چشمے کی تصویر کی طرح سجاتے ہیں اور دولت سے نوازتے ہیں۔
شامی انقلاب کے شروع سے لے کر اب تک یہ بہت ہی پر امن شہر تھا۔چھوٹا علاقہ ہونے کے باوجود، یہ پڑوس کے دوسرے قصبوں سے نکالے گئے 5 لاکھ لوگوں کا گھر بنا جن میں زیادہ تر لوگ عرب تھے۔
آج آفرن بہت برے اور وحشیانہ حملوں کی زد میں ہے۔ مقامی چشم دید گواہوں کے مطابق عام لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے بہت برے طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔ بچے اور بوڑھے ـخون میں لت پت ہیں، گھر تباہ کیے جا رہے ہیں ان بہانوں کے ساتھ کہ یہ سرحدی علاقہ ہے جو کہ کر دش تنظیموں کے قبضے میں ہے اور ساحد کی حفاضت اور شام کے لوگوں کے لیے خطرہ ہے۔
شہر، نزدیکی گاؤں اور نجی املاک جیسے: مقامی بھٹیاں اور ہسپتالوں پر بلا امتیاز بمباری ہو رہی ہے۔ عام لوگ جو مارے جا رہے ہیں ان میں بچے، بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں۔بہت سی عمارتیں جن سے شہر بنا ہے تباہ ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ: آبادی، زبان، ماحول اور قدیم یادگاریں جو ہزاروں سال پرانی تحذیب کی عکاسی کرتی ہیں اور جو یونیسکو کی حفاظت میں آتی ہیں۔ بازنتینی، ہریاں، حتیوں،ارامیوں اور یونانیوں کا کثیرارلثقافتی ورثہ منصوبے کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے جبکہ بین لاقوامی برادری شرم سار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
20 جنوری سے افرن کے دروازے حملہ آورں کو روکے ہوئے ہیں وہ اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ اس کے اس کے میدانوں پر قبضہ کیا جائےیا جنگلی جانور اس کے بچوں کو ڈرائیں۔ درختوں کی شاخیں تمہیں سجاتی رہیں گیں اور کامیابی تمہاری ہو گی۔ میں نہیں جانتی میں کس برلن کی دیوار، سٹالنگراڈ یا یاجوج ماجوج کی بات کر رہی ہوں کیونکہ اب تک تمہاری طرح کوئی نہیں رویا۔ تم اتنے سادہ اور جازب نظر ہو، اے خوابوں کے شہر! تم نے بھیڑیے اور دنبے کو دوست بنا دیا، آفرن بہادری کا منبہ۔
مجھے امید ہے کہ تم اپنے ہر بچے کو پناہ دو گےاوران سب کو جو تمہاری گرم آغوش میں آگئے ہیں۔ انہیں ان کے نقصاں سے بچانا جبہوں نے تمہیں کمزور سمجھا۔ مجھے امید ہے کہ ان کے وطن پرستانہ اور بے رحم کاموں کی سرزنش کی جائے گی اور تمہارے خلاف منصوبہ بندی سے کیا گیا حملہ رک جائے گا۔ امید ہے کہ یہ آخری جنگ ہوگی کیونکہ یہ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ اس کے ذریعے یہ قبائلی بد نصیب لڑائیاں پھیلائی جائیں۔قوم پرستی اس میں شامل ہو جاتی ہے اور تباہی پھیلانیں والی جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔
آفرن، ہمارے قلم تمہارے آگے جھکتے ہیں۔
*یہ مضمون “پناہ گزین پرندے” اخبار کے شمارہ نمبر 7 میں شائع ہوا ہے، جسے 31 مارچ 2018 کو اخبار “افیمریدا تون سنتاکتن” (ایڈیٹرز کے اخبار) کے ساتھ ملحقہ کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔
Add comment