میں داخلہ پر کھڑی تھی، اپنے سامنے دروازے کو گھور رہی تھی، ایک سال پہلے جب میں نے سوچا تھا کہ میں ونڈر لینڈ کے راستہ پر ہوں۔
زمین کافی حد تک الیس کی طرف سے ہٹا دی گئی ہے۔
سفید خیموں سے، تھکے ہوے اور بدقسمت لوگوں، اور صحت کے مراکز میں بھیڑ سے، بھری ہوئی زمین۔ میرے ونڈر لینڈ میں، بچے آرام کرنے کے لیے اپنے سبزیوں کے باغ میں ایک پتھر پر اپنے سر کو رکھ اس خوف سے آرام کرتے کہ کہیں ان کے خیمے گر نہ جائیں۔ اس وینڈرلینڈ کے باسی پچھلی صدیوں کی مصنوعات نہیں تھے، نہ ہی وہ غاروں میں رہتے تھے۔
وہ لوگ شہروں میں رہنے کے عادی تھے، جب تک ان کے ساتھ قدیی مخلوق کی طرح برتاؤ کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں، وہ سب آس اور امید چھوڑ چکے ہیں۔
ونڈر لینڈ میں اپنی زندگی کا آپس میں موازنہ کرنا مشکل ہے، خیمے سے بنا ہوا آپکا گھر، کیمپ میں بیکار چیزوں کے ڈھیر سے بنا ہوا اسکول اور اسکول میں مشترکہ سونے کا کمرے، اور آپ کے دوست ناخوش لڑکیوں کے ساتھ ساتھ والے خیموں میں۔
میں فرار ہونے کا راستہ تلاش کر رہی ہوں، میں خود سے سوچ رہی ہوں کہ کیا میں اس زمین سے باہر نکل سکوں گی۔
زندگی کی امید تبدیلی کے لئے ٹرگر تھا؛ خیمے کنٹینر میں تبدیل ہوگئے، سفید والے کم نہیں!
ایک سال بعد، یہ ونڈر لینڈ ایک چھوٹے سے دھاتی کمرہ میں بدل گیا، لیکن کم از کم یہ سفید، صفائی اور امید کا رنگ تھا۔ اور میں زیادہ امید مند اور خوش امیدانہ ہو گئی۔
چند ماہ کے منتظر ہونے کے بعد، آخر کار ہم کنٹینرز میں سوئے اور ہم نے ایک سکون کی رات کی نیند کا لطف اٹھایا جس نے ہمیں اپنے گھر کی یاد دلا دی۔ بلکل، ہم اچھی طرح سوئے جب تک آسمان ہمارے مہربان تھا، لیکن جب “رویا” یہ ایک آفت بن گیا تھا۔ یہ آپ کو یہ سوچنے پر مجور کرتا ہے کہ چھت آپ کے سر پر آ گرے گی۔ یہاں تک کہ برسات کی ایک بوند کی آواز بھی خوفزدہ اور بہت ناپسندیدہ تھی۔
اور ابھی تک، میں اپنے آپ سے پوچھتی ہوں “میں اس وینڈرینڈ کو کیوں یاد کرتی ہوں؟”
میں پہلے سے اب ایک بہت مختلف انسان بن گئی ہوں!
میں اکثر یہ چاہتی ہوں کہ ایک بار پھر میں ایک عام گھر میں رہ سکوں، جو اینٹوں اور پتھروں سے بنا ہو۔ میں نے اکثر اپنے آپ سے پوچھا کہ”کیا کسی رات کو امن اور سکون سے سنے کی آمد ہوگی؟” اور کیوںکہ بعض اوقات سچ ثابت ہو جاتی ہیں۔ مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ میں حقیقی گھر میں منتقل ہوجآوں گی۔ میں ابھی تک شک میں تھی اور اپنی منتقلی کے بارے میں تعجب محسوس کرتی ہوں۔
میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ آیا کہ میرے لئے وہ وقت ایک بار پھر منتقل ہونے ا تھا، پرندوں کی طرح۔ کیا یہ وقت میرے لئے تلخ اور میٹھا دونوں کی، تمام یادوں کی باقیات کو جمع کا تھا؟ کیا مجھے ایک بار الوداع کہنا ہے، ان لوگوں کو جنہوں نے میری دوستوں اور رشتہ داروں کی جگہ لی تھی تھا؟ یہ دوستوں کے لیے بہت دردناک ہے جن کے ساتھ آپ نے خوشی، غم کا اشتراک کیا، گرمی اور سردی، خیموں اور کنٹینرز، برف اور بارش میں یا تیز سورج کے نیچے خیموں میں۔ یہ دوسرا وقت ہے جب میں بڑے دروازے پر کھڑی اسے گھور رہی ہوں، لیکن اس بار یہ دروازہ استقبالیہ کا نہیں ہے بلکہ ونڈرلینڈ سے باہر نکلنے کا ہے۔ یہ میرا آخری دن ہے، اور میرے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا، میرے گلے میں بہت بڑی ڈل تھی بلکل کیمپ کے ارد گرد پہاڑوں کی طرح اور آنسو میری آنکھوں کے نیچے سے فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ مجھے دو مناظر محسوس ہو رہے تھے- داخلہ کے اور باہر جانے کے – جو میرے تصادم پیدا کر رہے تھے۔ وہی شخص جس نے ہمارا استقبال کیا تھا اب وہی تھا جو اب ہمیں الوداع کر رہا تھا، لیکن اس کا اظہار بہت مختلف ہے۔ اور اس طرح، میں اس جگہ کو چھوڑا جس نے مجھے عزم اور صبر سکھایا۔
جیسے ہی میں گھر میں داحل ہوئی، میں نے محسوس کیا کہ میں اپنے واقف ماحول سے باہر نکال دیا گئی اور حقیقت میں آ گئی جو مجھے سکون نہ دے سکا۔ بجائے، سونے کے میں اپنے دکھوں کو سوچا سو رہتی تھی۔ جی ہاں، میں ایک بار پھر اداس محسوس کررہی ہوں۔ ایک پناہ گزین کا افسوس کبھی نہیں ختم ہوتا۔ اور ابھی تک یہ نئی جگہ ونڈر لینڈ کے بچوں کی شور سے بھرا ہوئی نہیں ہے۔ رات کو کوئی چھید والی ہوا نہیں ہے اور برسات کے دن تقریبا بےآواز ہیں۔ یہاں تک کہ، میں اس سب کو یاد کرتی ہوں !! میں اپنے آپ کو دوبارہ دهرانے کے لئے معذرت خواہ ہوں، لیکن یہ میری زندگی ہے جو تکرار کی ایک سیریز بن گئی ہے۔
Add comment