“بچوں کو ہر طرح کی نظراندازی، بدتمیزی اور استحصال سے بچایا جائے گا۔ بچے کبھی بھی لینے دینے والا سامان نہیں بن سکتے ہیں۔ بچوں کو اس وقت تک ملازمت میں نہیں رکھا جائے گا جب تک کہ وہ کم از. کم قانونی طور پر کام کرنے کی عمر کے نہ ہوجائیں۔ کسی بھی وجہ سے بچوں کو ملازمت یا کسی بھی پیشے میں کام کرنے پر مجبور یا اجازت نہیں دی جائے گی جو کہ ان کی صحت یا تعلیم کے لئے نقصان دہ ہے، یا ان کی جسمانی، روحانی یا اخلاقی نشوونما میں رکاوٹ کا باعث ہے”۔یہ صرف کوئی خواہش نہیں ہے؛ بلکہ یہ بیانات ہیں جو کہ بچوں کے حقوق سے متعلق بین الاقوامی کنونشن میں مل سکتے ہیں۔ کنونشن کی توثیق کرنے والے ممالک اس کے پابند ہیں کہ وہ اس میں بیان کردہ حقوق کا احترام کریں اور بچوں کے تحفظ کے لئے ضروری اقدامات اپنائیں۔
یہ اقوام متحدہ کی ’بچوں کے استحصال کے خلاف جدوجہد‘ تھی جس کے نتیجے میں 1989 میں بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کی اشاعت ہوئی۔ کنونشن کے مطابق، دستخط کرنے والی ریاستوں کو بچوں کو کسی بھی قسم کی ملازمت سے بچانا ہوگا۔ البتہ، پوری دنیا میں بہت سارے بچوں کے لئے، چیزیں پہلے کی نسبت زیادہ بہتر نہیں ہوتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ابھی تک کچھ بھی نہیں بدلا۔ یہ مسئلہ ابھی بھی وہیں ہے اور در حقیقت، یہ اس سے بھی بدتر ہوتا جارہا ہے۔
آج بھی شام، بنگلہ دیش اور دوسرے ترقی پذیر ممالک میں سات سال سے زیادہ عمر کے 12 ملین سے زائد بچے، بڑے پیمانے پر کپڑے تیار کررنے والی فیکٹریوں میں غلاموں کی طرح کام کر رہے ہیں۔ یہ کمپنیاں منافع اور تجارت کاری کے لیے قربان گاہ پر بچوں کو قربان کردیتی ہیں اور انہیں کام کرنے پر مجبور کرتی ہیں – ظاہر ہے غیر قانونی طور پر اور بغیر کسی صحت کی انشورنس کے – ٹیکس چوری کی خاطر بین الاقوامی پانیوں میں تیرتی فیکٹریوں، گرتی عمارتوں اور بحری جہازوں پر۔ بچے 12 سے 16 گھنٹے بہت ہی خوفناک صورتحال میں کام کرتے ہیں۔ دباؤ اور ناجائز سلوک تو روز کی بات ہوتی ہے۔گندگی اور نقصان دہ کیمیکل کی نمائش سے مسلسل بیماری کا خطرہ رہتا ہے۔بچوں سے مزدوری کرنے سے صرف جسمانی صحت ہی متاثر نہیں ہوتی۔ بچوں کے تحفظ سے متعلق متعدد طبی مراکز اور تنظیموں کی طرف سے کی جانے والی متعدد مطالعات کے مطابق، بچوں کے مزدوری کرنے سے بچوں کی ذہنی حالت اور مستقبل دونوں پر شدید اثر پڑتا ہے۔کام کرنے کی وجہ سے، وہ اسکول نہیں جا پاتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی پوری زندگی تکلیف کی مذمت میں رہتی ہے۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ ہمیں اس مسئلے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ بچوں کا استحصال بغیر کسی شک کے خوفناک ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ دور کی بات ہے، اور یقینی طور پر یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں “ترقی یافتہ” مغربی ممالک دلچسپی رکھتے ہوں۔ ٹھیک کہا نا؟
غلط. دو چزیں ہیں۔ سب سے پہلے، کیونکہ بچوں کے حقوق اول اور سب سے اہم انسانی حقوق ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی ان کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہم سب متاثر ہوتے ہیں، اس لحاظ سے کہ ہم مزید ایک ایسی انصاف پسند دنیا سے خارج ہوجاتے ہیں جو سب کو مساوی مواقع فراہم کرتی ہے اور انسانی زندگی کا احترام کرتی ہے۔ دوسری بات، کیونکہ ہم خود اس طرح کی بچوں کی مزدوری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ایک ٹی شرٹ کی قیمت پانچ یورو سے کم ہوسکتی ہے، لیکن اس کی قیمت کسی بچے کی صحت، وقار اور مستقبل کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔ فیصلہ ہمارا ہے: کیا ہم ضرورت سے زیادہ استعمال کرتے ہیں اور بغیر سوچے خریداری کرتے ہیں یا ہم کسی کو تحفظ فراہم کرتے ہیں؟ اس چیز کو یقینی بنانے کے لئے کہ آپ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی حمایت نہیں کررہے ہیں، تو آپ مزدوری کے معیار کے مطابق والی کمپنیوں کو انٹرنیٹ پر “اخلاقی لباس” ٹائپ کرکے تلاش کرسکتے ہیں۔
—-
بی بی سی، وہ مہاجر جو ہمارے کپڑے بناتے ہیں(The refugees who make our clothes)
نیٹ فلکس، اصل قیمت۔(The true cost)
یو این ایچ سی آر ، https://www.unhcr.org/
—-
یہ مضمون اصل میں اسکول کے اخبار “ایکو ڈی ‘یوجین” کے 27 ویں شمارے میں شائع ہوا تھا، جسے ہیلینک فرانسیسی اسکول یوجین ڈیلاکروکس کے طلباء نے شائع کیا ہے۔ مضمون کے مصنفین تیسرے لائسیم میں شریک ہو چکے ہیں، جب کہ تصویر، دوسرا لائسیم کے طالب علم مائیکلس کراٹزیس کی طرف سے ہے۔
Add comment