گزشتہ برسوں میں، یونان نے جنگ سے متاثرہ پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کو خوش آمدید کیا۔ وہ ملک، جو گذشتہ کچھ سالوں سے، شام، افغانستان، عراق، ایران اور مشرقی وسط کے دیگر ممالک کو تباہ کرنے والی خوفناک جنگوں کے متاثرین کو مالی، نفسیاتی اور اخلاقی مدد پیش کر رہا ہے۔ پناہ گزینوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور سبھی ایک نئی زندگی کے موقع کی تلاش میں ہیں لیکن یونان ایک چھوٹا سا ملک ہے جو زیادہ دیر تک ان تمام مہاجرین کی مالی طور پر مدد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ان لوگوں کو بہتر مستقبل کے لئے دوسرے یورپی ممالک میں جانے کا موقع فراہم کرنا ضروری ہے۔
بدقسمتی سے، ستمبر کے پہلے ہفتوں کے دوران مہاجرین کی ایک نئی لہر یونان پہنچی، جس کے نتیجے میں کیمپوں اور استقبالیہ مراکز میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ مزید جیسے جیسے لوگ پہنچتے ہیں، اسی طرح سرحدوں پر حفاظتی اقدامات سخت اور سخت تر ہوتے جاتے ہیں۔ جیساکہ نئے وزیر اعظم نے واضح کیا ہے کہ وہ مہاجروں کے بحران سے بہت سختی سے نمٹیں گے۔ اس وقت سے سرحدوں پر صورتحال جوں کے توں ہے۔ یہ کسی حد تک رک جائے گا، کیونکہ ہمیں جتنے زیادہ مہاجرین وصول کرتے ہیں، اتنے ہی معیشت کے دیوالیہ کے قریب آجاتے ہیں۔ میں واقعی اس چیز کو سمجھتی ہوں کہ ان لوگوں کے لیے بہتر مستقبل کی تلاش ضروری ہے۔ بہرحال، ان میں سے کچھ یونان اور یوروپی یونین کی طرف سے پیش کی گئی مالی مدد سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ یقینا، سب ایک جیسے نہیں ہوتے!
ایک “عاجز” نوجوان ہونے کے ناطے، میں پارلیمنٹ کے ان ممبروں کو تجویز پیش کرنا چاہوں گی جو اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں، اس صورتحال کو نظرانداز نہ کریں بلکہ مہاجرین کے لئے یکجہتی کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کرنا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین کو اپنے خرچ کے لیے جز وقتی کام کی پیشکش کی جائے، کچھ پیسے بچائیں اور یونان چھوڑ کر اپنی پسندیدہ منزل تک جا سکیں۔
ہم یونانیوں کو، خاص طور پر ہم یونانیوں کو، انہیں سمجھنا چاہئے، کیوں کہ ہم خود مہاجر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ، 1922 میں ترکوں نے سمیرنا میں مقیم یونانیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا۔ ایک اور حالیہ مثال، یونانی نوجوان ہیں جو بہتر مستقبل کی تلاش میں دوسرے یوروپی ممالک میں ہجرت کر چکے ہیں۔ مہاجرین بس بہتر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، بلکل ہماری طرح، اورایک ہمدرد قوم ہونے کی حیثیت سے، ہمیں ان کی مدد کرنی چاہئے۔ ہم لوگ مہاجرین کو حقیقی اخلاقی مدد پیش کر سکتے ہیں، اور اسی طرح ہم ان کو یقین دلا سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک میں ناپسندیدہ نہیں ہیں۔
برسوں سے یونان قوموں کا ایک “میٹنگ پوائنٹ” رہا ہے۔ تو اب ہمارے پاس وہ چیزیں ظاہر کرنے کا موقع ہے جو دوسرے یوروپی ممالک کرنے میں مشہور نہیں ہیں: آپنی رحم دلی اور شفقت۔
*یہ مضمون “پناہ گزین پرندے” اخبار کے شمارہ نمبر 15 میں شائع ہوا ہے، جسے 12 اکتوبر 2019 کو اخبار “افیمریدا تون سنتاکتن” (ایڈیٹرز کے اخبار) کے ساتھ ملحقہ کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔
Add comment