یورپی ممالک کے کچھ لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ ہم ان کے ممالک میں خوش ہیں؟ 

کیا زمین وسیع ہے؟ کیا ہم سب کے لئے اتنی جگہ ہے؟ کیا یہ بچکانہ سوالات ہیں؟ اگر کوئی بچہ آپ سے یہی سوالات پوچھے تو غالبا آپ کا جواب ہوگا کہ: “ہاں میرے بچے، زمین کافی وسیع ہے اور یہاں ہر ایک کے لئے کافی جگہ ہے۔ دیکھو میرے بچے، ہم سب اس دنیا ميں خوشی اور شادمانی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اگر ہمارے جوابات ایک جیسے ہیں تو میں اس بچے کی طرح مسکرا نہیں سکوں گی۔ میں آپ کو کہوں گی: اگر زمین وسیع ہوتی اور سب کے لئے رہنے کی اتنی گنجائش ہوتی تو دنیا کو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کیا جاتا، یہاں سرحدیں موجود نہ ہوتیں، میرا ملک اور تمہارا ملک نہ ہوتا۔ میں آپ کو کہوں گی کہ “یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کا تعلق کہیں سے بھی ہو، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہم سب اس دنیا کے شہری ہیں”۔ یہ الفاظ ایک نعرے کی طرح میرے لئے بھی مضحکہ خیز ہیں۔ یہ الفاظ میرے لئے مضحکہ خیز ہیں، بالکل ایک نعرے کی طرح۔ میں آپ کو کہوں گی کہ زمین سب کے لیے وسیع تھی، لیکن ہم انسانوں نے اسے بڑے اور چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اسے اپنا اپنا بنا لیا ہے۔ ممیں آپ کو کہوں گی کہ میرے پاس اس وسیع و عریض زمین کا ایک چھوٹا ٹکڑا بھی نہیں ہے۔ اگر ہم سب اس زمین کے شہری ہیں اور قومیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو پھر جب بھی آپ مجھے دیکھتے ہیں تو آپ کے ذہن میں پہلا سوال یہ کیوں آتا ہے “آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟”؟

تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ایک مہاجر آپ کے ممالک میں واقعتا خوش اور آسودہ ہے، جو کہ حقیقت نہیں ہے۔ کوئی بھی انسان اپنا وطن چھوڑنے پر خوش نہیں ہوتا، اس سرزمین کو جہاں وہ پیدا ہوا ہو، پلا بڑھا اور جہاں اس نے اپنے پہلا تجربات حاصل کئے ہوں۔ کوئی بھی اپنے پیاروں کو پیچھے چھوڑ کر جانے پر خوش نہیں ہوتا۔ مجھے خوش نہیں ہوں کیونکہ جن لوگوں کے شہر میں میں رہتی ہوں وہ میری موجودگی سے خوش نہیں ہیں۔ کیا میں صرف محفوظ ہوں۔ ہاں، بلکہ نہیں! آج کل میں محفوظ بھی نہیں ہوں۔ میں خوش نہیں ہوں، کیونکہ ان دنوں میرے پڑوسی بھی میرے پڑوسی ہونے پر خوش نہیں ہیں۔ مگر میں محفوظ ہوں۔ اصل میں نہیں، میں پھر بھول گئی، میں تو محفوظ بھی نہیں ہوں۔ میں محفوظ نہیں ہوں، جب ایک جرمن سیاست دان جرمنی کی 69ویں سالگرہ کے موقع پر فخر کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ “میں نے 69 افغان پناہ گزینوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا ہے”۔ جرمنی میں 8 سال گزارنے والے، ان نوجوانوں میں سے ایک نے خودکشی کرلی۔ کیا میں ایسے براعظم میں خوش رہ سکتی ہوں جہاں سیاستدان پناہ گزینوں کی زندگیوں سے اس طرح کھیلتے ہوں؟ مجھے یہ حقیقت بلکل بھی پسند نہیں ہے جب ميں اچھی لگ رہی ہؤں تو آپ سوچتے ہیں کہ ہمیں آپ کے ٹیکس کے پیسے کا شکریہ کیونکہ آپ کی حکومتیں اپنے ٹیکس دہندگان کا پیسہ ہمیں دے رہی ہیں اور لیکن جب میں اچھا نہیں لگ رہی ہؤں، تو میں صرف ایک گندی اور بدبودار پناہ گزین ہوں۔ ذرا سوچیں: کیا آپ اپنے ممالک ميں مہاجرین کے داخلے سے قبل ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے؟ تو پھر آپ میرے لئے ٹیکس نہیں دیتے۔ میں ایک پرامن ملک میں رہنے اور صرف قومیت حاصل کرنے کے لیے، لاکھوں روپے ٹیکس ادا کرنے پر راضی تھی، صرف اس زمین پر ایک چھوٹا سے ٹکڑا  حاصل کرنے کے لیے جس کو میں “گھر” کہہ سکوں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں اس ملک میں رہنے پر خوش ہوں جو میرا اپنا نہیں ہے اور اپنے اکاؤنٹ میں ایک چھوٹا سا ماہانہ مالی اعانت حاصل کرنے میں، جبکہ میں اپنی ہر چیز کی ذمہ دار خود ہوں تو آپ کو دو بار سوچنا چاہئے۔

اپنے آپ کو آپ میرے جوتے میں رکھ کر تو دیکھو۔ مجھے اس جگہ کا انتخاب کرنے کا موقع ہی نہیں ملا ہے جہاں میں رہنا چاہتی ہوں۔  کبھی کبھی تو مجھے بس کی سیٹ پر بیٹھنے کا حق بھی نہیں ملتا۔ کبھی کبھی تو، کئی مہینوں تک میرے بچوں کو اسکول جانے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ کیا آپ میری جگہ پر ہونا پسند کریں گے، اس خوف کے ساتھ جو آپ کے اندر میٹرو ٹرین کے انتظار کے دوران ہو، کہ ابھی آپ کو کوئی ریل کی پٹڑی کی طرف دھکیل دے گا؟ کیا آپ میری جگہ پر ہونا پسند کریں گے، جس میں آپ کا روزانہ سب سے پہلا کام، مہاجرین سے متعلق تازہ ترین سیاسی خبروں یا مہاجروں کے خلاف فاشسٹوں کے حملوں کی جانچ پڑتال یا بحیرہ ایجیئن میں ڈوب جانےوالی انسانی جانوں کی گنتی کی تعداد کی خبریں سناہو ہو؟ ہاں ، یہ سب چیزیں ہماری دنیا میں ہو رہی ہیں، کتابوں یا کہانیوں میں نہیں۔

میں خوش نہیں ہوں، میں صرف محفوظ ہوں۔ مجھے عدم تحفظ کا خوف تھا، جنگ کا، موت کا، اپنے والد کو امن کی بات کرنے پر پھانسی پر لٹکا دیئے جانے کا، میرے بھائی کی شادی کی تقریب کو ممکنہ خودکش بم دھماکے کی وجہ سے سوگ میں بدلنے کا خوف تھا۔ ہاں، ان سب چیزوں کے خوف سے میں نے آپ کے ملک میں پناہ مانگی تھی۔

آپ کا ملک میرا ملک نہیں ہے، میرے لئے یہ صرف ایک پناہ گاہ ہے۔ میں صرف محفوظ ہونے کے لئے یہاں ہوں، پر کبھی کبھی تو میں محفوظ بھی نہیں ہوتی۔ یاد کرو 26 اگست 2019 کو اگذارکھیا میں۔ صبح 5 بجے کا وقت تھا، جب میں گہری نیند میں تھی، اور وہ خواب دیکھ رہی تھی جن تک میں کبھی نہیں پہنچ سکتی۔ تو آپ کی پولیس نے ہمارے گھر پر چھاپہ مار کر سیکڑوں خواتین اور بچوں کو گھروں سے بے دخل کردیا۔ کیا بغیر کسی اطلاع کے صبح 5 بجے منشیات کا کاروبار ہونے والے علاقے کو صاف کرنا مناسب ہونا چاہئے؟ یہ سکواٹس ہیں جو 80٪ بے گناہ خواتین اور بچوں پر مشتمل ہیں۔

یہ سب مبالغہ آمیز نہیں ہے، بلکہ مہاجر کی زندگی کا ایک مختصر سا عرصہ ہے۔ میں نے یہ سب اس لیے لکھا ہے تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ ہر مسکراہٹ کے پیچھے غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔ میں نے یہ سب اس لیے لکھا ہے تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ یورو اور پیسے ان مسائل کو حل نہیں کرسکتا ہے۔ آخر میں، میں گاندھی کے الفاظ پر عمل کرنے کی پوری کوشش کروں گی: “وہ تبدیلی پیدا کرو جو آپ دنیا میں دیکھنا چاہتے ہیں۔” میں اپنے بچے کو یہ تعلیم دوں گی کہ ہم مل کر اس دنیا کو ایک وسیع و عریض سرزمین میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ ہم انسانیت، نسل پرستی، قومیت یا مذہب کی پیروی نہیں کرسکتے ہیں۔ میں اپنے بچے کو یہ تعلیم دوں گی کہ الفاظ میں طاقت ہو سکتی ہے، اگر ہم ان پر عمل کریں تو وہ اور بھی زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ آئیے آزادی، مساوات اور انسانی حقوق کے نعروں پر عمل پیرا ہوں اور ان کا احساس کریں۔

Add comment