By Xenia B

مجتبی رحیمی

دوستی ہمارے معاشرے کا ایک اہم جز ہے جسے ہم نظر انداز کرتے ہیں ۔ اسے اکثر بہت سے لوگ حقیر سمجھتے ہیں اورہمارے روزمرہ کے ارادوں پر عمل کرنے کے لیے اس کی اہمیت لالچ اور خود غرضی سے جانی جاتی ہے ۔ دوست وہ لوگ ہیں جن کی طرف ہم اس وقت رجوع کرتے ہیں ، جب ہمیں مشورے کی ضرورت ہوتی ہے یا رونے کے لیے کندھے کی ضرورت ہوتی ہے یا جب ہم نیچے گرے ہوے ہوتے ہیں اور کوئی موجود ہوتا ہے۔ وہ ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ ، ہمارا کسی سے تعلق ہے جو ہمیں مدد اورخوشی فراہم کرتے ہیں۔

اگر ہمارے پاس گہرائی میں جانےاور بامعنی تعلقات بنانے کے لیےآخری حد تلاش کرنے کا وقت ہوتا تو شاید ہم دنیا کی تاریخ کے تاریک ترین لمحات سے بچ سکتے تھے ۔ ہم سب کو پیدائش سے ہی سکھایا جاتا ہے کہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انفرادی طور پر کوشش کریں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنی بات چیت میں محتاط رہیں۔ اس طرح کا گھٹیا اندازہ لگاتے ہوے حقیقی رابطے سے کیا حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم سب کا پس منظر، عقائد اور تجربات مختلف ہیں، لیکن دوسرے جوہر لحاظ سے ہمارے جیسے نہیں ہیں ، دوستی ہمیں ان کے ساتھ جڑنے کی اجازت دیتی ہے ۔ اس سے ہمیں رکاوٹوں کو توڑنے اور ان لوگوں سے جن سے شاید کسی دوسری صورت میں نہیں ملے تھے کے ساتھ باہمی تعلقات استوار کرنے میں مدد لیتے ہیں۔

معاشرے پر ہمارا اثر ہماری اپنی ذات سے شروع ہونا چاہیے۔ انسان سماجی مخلوق ہیں۔ سماج کاری ہمارے ذہنوں کی نشوونما اور ہماری روحوں کی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ کھلے ذہن کا ہونا، خود آگاہی اور جذباتی ذہانت مستقبل کے معاشرے کے لیے عظیم رہنماؤں کی خصوصیات ہیں۔ اگر ہم ان خصوصیات کو ضروری اہمیت دیں تو توقیر اور غلط فہمیوں سے پاک معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ ہم نہ صرف الگ قوموں کے طور پر بلکہ مجموعی طور پر اپنے اختلافات اور ان تعصبات کے باوجود ایک ساتھ رہنا سیکھ سکتے ہیں ۔

ہم اپنے اختلافات اور ان تعصبات کے باوجود ایک ساتھ رہنا سیکھ سکتے ہیں جو ہم نے برسوں سے اپنائے ہیں، نہ صرف الگ قوموں کے طور پر بلکہ مجموعی طور پر۔

الیکسندرا کوسوسوان

Add comment