سامرا اخبار کے پہلے شرکت داروں میں سے ایک تھی اور اب وہ جرمنی سے اخبار کے لیے لکھ رہی ہیں
فیملی سیپریشن (خاندان کی علیحدگی)… اس لفظ کی آواز ایک خوفناک خواب کی طرح تھی۔ ابھی بھی یہ خوفناک خواب اب ایک بہت تلخ حقیقت بن چکا ہے۔ میری زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں اپنے خاندان سے الگ کبھی ہوئ ہوں، کونکہ کبھی کوئی ایسی وجہ ہی نہیں بنی۔ لیکن قسمت میں یہ ہونا تھا۔ کوئی بھی بالغ یا بچہ کبھی بھی خوش نہیں ہوسکتا اگر وہ اپنے خاندان یا پیاروں سے دور رہنے پر مجبور ہو تو۔ ابھی تک مسائل اور زندگی کی مشکلات نے ہمیں مجبور کر رکھا ہے۔ یہ ایک بہتر اور آرام دہ زندگی کی توقع تھی جو مجھے ادہر تک لائی ہے۔
یہ ایک ایسی خواہش تھی جس نے مجھے اپنے وطن کی زمین کو چھوڑنے پر رضامند کیا۔ میرے لئے، میری زندگی میں پہلا تلخ تجربہ میرے دوستوں سے علیحدہ ہونے کا تھا، میرے پیاروں سے اور ہر اس چیز سے جو مجھے ایران میں رہنے پر پابند کیے ہوے تھی۔ جب میں اپنے خاندان کے ساتھ تھی، میں امید پر تھی۔ لیکن میری بد قسمتی نے مجھے اپنے پیاروں سے دور کر دیا۔ اب میں تمام وزن اپنے کندھے پر اٹھانے پر مجبور ہوں۔ کبھی کبھی میں اتنی اکیلی اور اتنی کمزور محسوس کرتی ہوں کہ میں سوچتی ہوں کہ میں زندہ نہیں بچوں گی۔ لیکن جب میں یاد کرتی ہوں کہ میں یہاں کیوں آئی ہوں تو میں اپنے آپ کو بتاتی ہوں کہ مجھے اپنے راستے کی تمام رکاوٹوں پر قابو پانے کی طاقت ضرور ہونی چاہیے۔ اور مجھے امید ہے کہ ایک دن میں اپنے خاندان کو دوبارہ ملوں گی اور سکون سے ان کے ساتھ رہوں گی۔
لہذا، ہم سب میں سے جو اپنے خاندانوں سے دور رہتے ہیں، انہیں اپنے خوابوں اور عزائموں کو آگے بڑھانے کے لئے ہمت رکھنا ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن آئے گا جب دنیا میں کوئی پناہ گزین نہیں ہو گا۔
Add comment