Photo by Migratory Birds Team

کیمپ میں راتیں

مجھے ہمیشہ سے راتوں سے محبت ہے۔ مجھے ستاروں سے محبت ہے، اندھیری راتوں میں، نیلے آسمان پے چمکتے ہوئے ستارے۔ لیکن جب سے میں ایک پناہ گزین اور پناہ گزین کیمپ کی رہائشی بننی ہوں، مجھے محسوس ہوا کہ ہر رات خوبصورت نہیں ہوتی۔ ہر دن اور رات کی خوبصورتی صورت حال پر منحصر ہے۔ مجھے راتوں سے محبت ہے، جب میں گھر میں امن اور سلامتی محسوس کرتی ہوں، جب میں اپنے گرم بستر پر لیٹ کر آسمان کو ایک چھوٹی سی کھڑکی سے دیکھ سکوں۔ پراب، میں ایک چھوٹی سی جالی سے لپٹی ہوی کھڑکی سے آسمان سے دیکھ رہی ہوں، خوف اور ڈر کے ساتھ، جب تک اندھیرا بڑھتا ہے تو مجھے ڈر ہراتا ہے۔ اب مجھے راتوں میں کوئی خوبصورتی نہیں دکھتی۔ ستارے چمکتے نہیں ہیں اور ناہی میری طرف جگمگاتے ہیں۔ وہ اداس اور کافی خاموش نظر آتے ہیں۔ جب رات ہوتی ہے تو، میں بہت اکیلا محسوس کرتی ہوں جیساکہ کوی لامتناہی صحرا میں کھو گیا ہو۔ میں مدد کے لئے بلا رہی ہوں اور کوئی بھی میری آواز نہیں سن پا رہا۔ گزشتہ موسم گرما میں میری راتیں بہت طویل تھیں، سب سے گرم اور سب سے مشکل میں نے جانا ہے، اور اب میں موسم سرما کی سرد ترین اور سب سے زیادہ خوفناک راتوں کا تجربہ کر رہی ہوں۔ 

جیسا کہ رات سیاہ ہوتی جاتی ہے، ایک موٹی خاموشی کیمپ پر مشتمل ہوتی ہے اور مجھے موت کی دھمکی مہسوس ہوتی ہے۔ اللوؤں کی آوازیں میرے دل کے خوف میں ذیادہ اضافہ کرديتی ہے۔ ہماری ثقافت میں الو ایک مہمیز ہے۔ پھر ہوا چلتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہماری آخری پناہ گاہ لے اپنے ساتھ لے جاۓ گی۔ راتوں کے دوران ہر چیز بہت اندیری ہو جاتی ہے۔ کیمپ میں راتیں قبروں سے بھرا ہوا قبرستان لگتی ہیں۔ مجھے مہسوس ہوتا ہے اگر مجھے اتنی چھوٹی جگہ میں زندہ دفن کیا گیا ہو کہ جہاں میں سانس بھی نہ لے سکوں۔ 

مجھے بارش والی راتیں پسند تھیں، مجھے بارش کے نیچے بھی گھومنا پسند تھا لیکن مجھے اب پسند نہیں ہے۔ مجھے پتہ تھا کہ سرد رات میں بارش کے نیچے چلنے کے بعد، گرم گھر ہو گا، سوادی چائے کا ایک کپ میرے لئے انتظار کر رہا ہوگا۔ اب میری راتوں ميں کچھ نہیں ہے بلکہ اگلی صبح کی امید سے گزرتی ہیں۔ 

امید ہے کہ میں خوبصورت موسم گرما کی راتوں سے دوبارہ لطف اندوز ہو سکوں، مجھے امید ہے کہ ایک دن مجھے اپنی حفاظت کے لئے گھر کی چھت ملے گی۔ پتھر سے بنا ہوا کپڑا سے نہیں جو ہر وقت ہلتا رہتا ہے اور مجھے ڈرا رہتا ہے، مجھے امید ہے کہ ایک دن میں ہماری چمنی سے نکلتے شعلوں کو دیکھوں گا، اور میں ان تمام خوفناک راتوں کو یاد رکھوں گا، اور میں گرم میٹھی چائے کے ایک گھونٹ کے ساتھ ان یادوں کی شدت کو ختم کردوں گا۔

 پراستو حسینی

Add comment