مہدیہ حسینی
ہم آپ کو ان یادوں کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں جنہوں نے گذشتہ دو سالوں میں ہماری زندگی کو بہتر بنایا۔ ان یادوں نے ہماری سوچ، معاشرے کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کو دیکھنے کے انداز پر اثرو رسوخ حاصل کیا۔
ایک دن، میں اپنے ایک دوست سے ملنے کے لئے، کیمپ میں گئی جہاں میں رہتی تھی۔ ادہر جاتے ہی سب سے پہلے، میں کیمپ میں اپنی ماضی اور اپنی زندگی کی یادوں سے مغلوب ہوگئی۔ میرا دماغ الجھن میں پڑگیا اور مجھے اس سے دشواری پیش آرہی تھی۔ اسی دوران، میں اپنی دوست کو تلاش کر رہی تھی جوکہ خواتین کی حمایت کرنے والی ایک تنظیم میں مترجم کی حیثیت سے کام کررہی تھی، پر وہ اس وقت بہت مصروف تھی۔ آخر کار اس نے مجھے ملاقات کے لئے بلایا، جہاں بہت ساری خواتین اور لڑکیاں موجود تھیں۔
ملاقات والی جگہ پر جاتے ہوئے، میں نے بہت ساری خواتین کو “پناہگزین پرندے اخبار” پڑھتے ہوئے دیکھا، اور خاص طور میری طرف سے لکھا گیا وہ مضمون جس کا عنوان، “افغانی عورت ایک افغان مرد کیا کہنا چاہتی ہے”۔
جیسے ہی انہوں نے وہ مضمون پڑھ لیا، خواتین سے ان کی رائے طلب کی گئی، یہ جانے بغیر کہ مضمون کس نے لکھا ہے۔ ان خواتین میں سے ایک نے جو حیرت دکھائی اس نے واقعی مجھے حیران کردیا۔ “ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ مضمون کسی افغان خاتون نے لکھا ہو”۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کس چیز نے اسے ایسا سوچنے پر مجبور کیا، اور انہیں ایسا کیوں لگا کہ اس مضمون کے مصنف کا تعلق ممکنہ طور پر افغانستان سے نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے جواب دیا، “یہ مضمون ایک مضبوط، بہادر عورت نے لکھا ہے، اور ایسی خواتین افغانستان میں نہیں ہیں”۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ عورتوں کا احترام اس طرح سے کیوں کرتی ہیں، اور انہوں نے جواب دیا کہ ان کی پرودش ہی اسی طرح ہوئی ہے۔
میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ ہم اپنے مردوں کی مدد کس کیسے سکتے ہیں، جب افغان خواتین کو اپنے آپ اعتماد ہی نہیں ہے۔اگرچہ ان کی الفاظ نے مجھے پریشان کردیا، لیکن انھوں نے مجھے اپنے ملک کی خواتین کے بارے میں مزید مضامین لکنے ہمت دی۔ شاید وہ 21 ویں صدی میں بھی اپنے آپ اور اپنی صلاحیتوں پر یقین نہیں رکھتے ہیں، لیکن میں ان پر یقین رکھتی ہوں۔
اس ملاقات میں ایک اور خاتون نے کہا: “ہمیں فخر ہے کہ یہاں ایک ایسی افغان خاتون بھی موجود ہے جو اپنے آپ کا اظہار کرنے اور تمام افغان خواتین کے جذبات کو جاننے کے قابل ہے۔”
اس دن میں نے بیک وقت دو متضاد جذبات کو محسوس کیا۔ ملاقات کے اختتام پر میں نے اپنا تعارف کرایا اور انہوں نے مجھے گلے لگا لیا ۔انہوں نے “پناہگزین پرندے” اخبار کی ٹیم کے تمام ممبروں کا بھی شکریہ ادا کیا۔
اب ہم آپ کو “مہاجر پرندے” اخبار سے اپنے اپنے تجربات اور یادوں کو بانٹنے کے لئے مدعو کرنا چاہیں گے۔
عبدالرشید محمدی
جب سے میں نے “مہاجر پرندوں” میں شمولیت اختیار کی، تو ہر میٹنگ خوشگوار یاد بنی۔ میں نے بہت سارے لوگوں سے ملاقات کی اور ٹیم کے ساتھ میرے تجربات نے مجھے یہ ظاہر کروایا کہ جنس، قومیت یا مذہب سے قطع نظر ہم سب برابر ہیں۔ جب بھی میں کسی کو ہمارا اخبار پڑھتے اور ہماری حوصلہ افزائی کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے اس ٹیم کا ممبر بننے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔
عبد الرحمان مندالہ
ایک دن، میں اپنے ایک دوست کے ساتھ اخبار کی میٹنگ سے واپس آرہا تھا۔ ہمیں دیر ہوچکی تھی اور ہم مالاکاسا جانے والی ٹرین پکڑنے کی امید میں تھے، لیکن اس سے پہلے پہلے ہمیں میٹرو لینا پڑی۔ ہم بغیر کسی ٹکٹ کے کھلے دروازے سے گزر کر اندر چلے گئے لیکن ہمارا انسپکٹرز اور پولیس سے آمنا سامنا ہوگیا۔ انہوں نے ہمیں ٹکٹ دکھانے کو کہا اور ہمیں انہیں بتانا پڑا کہ ہمارے پاس ٹکٹ نہیں ہے۔ جونہی ہم نے انہیں اپنے صحافیوں والے کارڈ دکھائے تو وہ متاثر ہوئے کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ ہم اس اخبار میں رضاکار ہیں۔ انہوں نے ہمیں دو کے بجائے ایک کو جرمانہ کیا۔
احتشام خان
میری، ہمارے اخبار کے ساتھ بہت دلچسپ یادیں وابستہ ہیں جن کی وضاحت کرنے کے لیے میں الفاظ نہیں ڈھوڈ سکتا۔ لیکن مجھے وضاحت کرنی ہے۔ سب سے پہلے، میں نے 16 دسمبر، 2017 کو اپنے اخبار میں شمولیت اختیار کی۔ ایک نئے رکن کے طور پر، میں کچھ لکھنا چاہتا تھا، لیکن شروع میں میں صرف سن رہا تھا۔ اس کے بعد، آہستہ آہستہ، میں نے اپنی پہلی نظم شائع کی۔ وہ ایک لمحہ تھا جس نے میری زندگی بدل دی۔ اس کے بعد سے، اپنی تحریروں کے ذریعے، میں اپنی آواز کو اس ملک کے عام اور طاقتور لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
محمد نسیم حیدری
جب مجھے پہلی بار اخبار کا تعارف کرایا گیا تو میں خاصا اتنی ہمت والا نہ تھا اور نہ ہی مجھے خود پر اتنا اعتماد تھا۔ ٹیم میں شامل ہونے سے میرے اعتماد میں اضافہ ہوا: اس سے مجھے پناہ گزینوں اور انہیں درپیش مشکلات اور درد کا احساس ہوا، اور مجھے ان کی آواز بننے اور اسے لوگوں کے کانوں تک پہنچانے کی ہمت ملی۔
مجھے یاد ہے کہ اخبار میں میری شمولیت کے دو ماہ بعد، یونان میں مجود پناہگزینوں کو درپیش مشکل حالات کے بارے میں ایک سیمینار میں تقریر کرنے میں کامیاب رہا۔ اس سیمینار میں بیرون ممالک، جیسے فرانس، انگلینڈ، کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ کے بہت سے زائرین موجود تھے۔ اور اسی اخبار کی وجہ سے ہی میں پناگزینوں کے مسائل اور مشکلات کو 500 سے زیادہ لوگوں کو بیان کرنے میں کامیاب رہا۔
محمد نسیم حیدری
جب میں پہلی بار “پناہ گزین پرندے” صحافیوں کی کی ٹیم میں شامل ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ اگر ہم متحد ہوجائیں تو ہم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوطی سے اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھ سکتے ہیں اور اس اخبار کو ہم پناہگزین اور مہاجرین کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، میں نے اپنی گروپ میٹنگوں کے ذریعہ بہت کچھ سیکھا، اور میں نے لوگوں کے حقوق اور جنسی برابری پر جھلک ڈالی۔ میرے خیال سے یہ اخبار میں اپنی شمولیت سے حاصل کی جانے والی سب سے اہم چیز تھی۔
نورا ال فضلی
ایک دن میں کیمپ میں بیٹھی ہوئی تھی، جب “پناہ گزین پرندوں” کی ادارتی ٹیم کے کچھ ممبران ہمارے پاس اپنے اخبار کے بارے میں بات کرنے آئے اور انہوں نے ہمیں اپنی میٹنگ میں شمولیت کی دعوت دی۔ مجھے انکا آئڈیا پسند آیا، اور میں اپنی پہلی میٹنگ میں بہت لطف اندوز ہوئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں اخبار کی تیاری میں حصہ لینا چاہتی ہوں اور انہوں نے منتخب کر لیا گیا۔ اب میں نوجوان صحافیوں کی ایک سرگرم رکن ہوں، مضامین لکھتی ہوں اور انٹرویو لیتی ہوں۔ کتنی عمدہ، نہ بھولنے والا وقت ہے۔
عمر فاروق
میرا نام عمرفاروق ہے اور میں پاکستان سے تعلق رکھتا ہوں ۔
پہلی بار جب اخبار کے کچھ صحافی ہمارے کیمپ میں آے اور ہمیں انہوں نے اخبار کے بارے میں بتایا اوراس میں کام کرنے کا موقع فراہم کیا ۔ جب میں پہلی بار اخبار میں کچھ لکھنے جارہا تھا، تب مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا لکھوں پھر میں نے کوشش کی اور اخبار میں اسکول کی زندگی کے بارے میں کچھ لکھا اور اخبار میں شائع کرنے کےلئے جب میں نے اپنے سنئیر کو کہا تو اس نے میری حو صلہ افزائی کی اور مجھے بتایا کہ اخبار کے ذریعے لوگوں تک ہم اپنی آواز کیسے پہنچا سکتے ہیں۔ جس سے مجھے یہ پتا چلا کہ اخبار ہماری زندگی میں کیا اہمیت رکھتی ہے آہستہ آہستہ مجھے اپنی آواز لوگوں تک پہچانے کا ذریعہ ملا اور لوگوں نے ہماری اخبار کو پڑھنے میں دلچسپی رکھی ۔اخبار میں موقع کی وجہ سے میری زندگی میں تبدیلی آئی جو بات میں کہنا چاہتا تھا وہ بات میں نے اس اخبار کے ذریعے لوگوں کو بتائی جس سے لوگوں کو اور بھی دلچسپی پیدا ہوئی کہ وہ ہمارا اخبار پڑھیں.
عمیر فاروقسے لوگوں کو اور بھی دلچسپی پیدا ہوئی کہ وہ ہمارا اخبار پڑھیں.
محمد عل ریفائی
اپنی زندگی میں سب کچھ برداشت کرنے اور ان کا سامنا کرنے کے بعد، جب میں یونان پہنچا تو میرا مقصد یہ تھا کہ میں اپنی آواز دور دور تک پہنچاوں۔ گو که، مجھے ڈر تھا کہ میں پسماندہ ہی رہ جاؤں گا اور نہ ہی میری آواز ہوگی گی نہ ہی اپنی کوئی جگہ۔ مجھے ڈر تھا کہ میری آواز میں گونج نہیں ہوگی اور میرے علاوہ اسے کوئی نہیں سن پائے گا۔ اخبار کی ٹیم میں شامل ہونے سے مجھے اس چیز کا احساس ہوا کہ ہمیشہ میں ہی اپنی آواز سننے والا نہیں رہوں گا، اور یہ کہ اور بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مجھے سننا چاہیں گے۔
Add comment