نیلسن منڈیلا – وہ جنگجو جس نے امید کو فروغ دی 

تھوڑی دیر پہلے مجھے فیس بک پر ایک میسج آیا:

“اس میں لکھا تھا کہ، پیدائش کے سو سال پورے ہونے کے موقع پر، ہم جنوبی افریقہ کے سابق صدر کو انسانی حقوق، وقار اور آزادی کے حامی کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ ہم پر کتنا اثر پڑے گا اگر ہم سب ان کی مثال پر عمل کریں اور دوسروں کی زندگیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کریں”۔

اس چیز نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ نیلسن منڈیلا کتنے بااثر انسان تھے اور میں نے انسانیت کے نام پر ان کی جدوجہد کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ 

ان کی سرکاری ویب سائٹ، nelsonmandela.org میری معلومات کا بنیادی ذریعہ تھا۔  

منڈیلا کا تعلق مادیبا قبیلے سے تھا اور جولائی 1918 میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی، وہ مزاحمت کی جنگیں لڑنے والے اپنے آباؤ اجداد کی کہانیاں سنا کرتے تھے اور کا بھی ایک خواب تھا کہ  ایک دن وہ بھی اپنے لوگوں کی آزادی میں حصہ ڈالیں گے۔   

انہوں نے فورٹ ہیئر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور 1952 میں، اولیور ٹمبو کے ساتھ مل کر، جنوبی افریقہ میں پہلے سیاہ فام وکیل کا دفتر قائم کیا۔ انہوں نے مشترکہ طور پر ایک “اسپیئر آف دی نیشن” نامی تنظیم کی بنیاد رکھی اور انہیں کہا گیا کہ وہ مسلح مزاحمتی تحریک کی قیادت کریں۔

بعد میں انہیں جنوبی افریقہ چھوڑنے کا پابند کیا گیا اور وہ پورے براعظم  کا سفر کرتا رہے۔ جب وہ واپس آئے تو انہیں ہاؤک کے باہر ایک بند کی گئی روڈ پر سے گرفتار کرلیا گیا۔ افریقی نیشنل کانگریس (اے این سی) کے صدر، البرٹ لٹولی کو خبر تھی کہ وہ واپس آگئے ہیں۔ منڈیلا پر غیر قانونی طور پر ملک چھوڑنے اور کارکنوں کو ہڑتال کی ترغیب دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ انہیں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی، لیکن انہوں نے صرف ایک ماہ ہی قید کاٹی۔ 

جب پولیس نے للیسلیف فارم پر چھاپہ مارا، جہاں انہیں اے این سی کے کارکنان چھپ چھپ کر ملتے تھے، وہاں سے منڈیلا کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اکتوبر 1963 میں، منڈیلا اور 15 دیگر افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔ اپریل 1964 میں کمرہ عدالت کے اندر سے دی گئی ان کی مشہور تقریر تاریخ میں لکھ چکی ہے۔ 

“میں نے اپنی زندگی کو افریقی عوام کی جدوجہد کے لیے وقف کیا ہے۔ میں سفید تسلط کے خلاف جدوجہد کی، اور میں نے سیاہ تسلط کے خلاف جدوجہد کی۔ میں نے جمہوری اور آزاد معاشرے کے آئیڈیل کی پاسداری کی ہے جس میں تمام افراد ہم آہنگی اور مساوی مواقع کے ساتھ مل کر رہیں۔ یہ ایک مثال ہے جسے حاصل کرنے کی امید سے میں ذندہ ہوں۔ اگر ضرورت پڑی تو اس مثال کے لیے میں مرنے کو تیار ہوں۔” 

بعدازاں ان کی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور جون 1964 میں، ان کو اور سات دیگر افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور انہیں روبن جزیرے میں بھیج دیا گیا۔ 24 سال بعد، اگست 1988 میں انھیں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہیں ٹی بی مرظ کی تشخیص ہوئی۔ اسی سال دسمبر کے ماہ میں انہیں وکٹر ورسٹر جیل منتقل کردیا گیا جہاں انہوں نے اپنی قید کے آخری 14 ماہ گزارے۔ کل ملا کر، انہوں نے 27 سال جیل میں گزارے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران، منڈیلا نے مشروط رہائی کی تین پیش کشوں سے انکار کردیا۔ 

جیسے ہی وہ آزاد ہوئے، انہوں نے سفید فام حکمرانی کے خاتمے کے لئے باضابطہ مذاکرات شروع کردیئے۔ 1993 میں، انہیں ایف ڈبلیو ڈی کلارک کے ساتھ مل کر نوبل امن انعام سے نوازا گیا، وہ شخص جس نے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ اپریل 1994 میں، منڈیلا نے پہلی بار ووٹ دیا تھا۔ جب مجھے یہ پتا چلا تو میں واقعی بہت حیران ہوا۔ 

مئی 1994 میں، وہ جمہوری طور پر ملک کے پہلے منتخب صدر بنے، لیکن ایک مدت کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا، جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ وہ قومی اتحاد کی بحالی اور نسلی تقسیم کو ختم کرنے میں کامیاب رہے۔ 

ان کی حکومت نے زرعی اصلاحات، غربت کے خاتمے اور صحت کے نظام کی بھالی میں بدلاؤ کیلئے اقدامات کو آگے بڑھایا۔

اپنے عہد صدارت کے اختتام پر، منڈیلا سرگرم رہے اور انہوں نے نیلسن منڈیلا چلڈرن فنڈ اور منڈیلا روڈس فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ وہ ہمیشہ سے ہی جمہوریت کے متمول حامی تھے: انہوں نے کبھی بھی نسل پرستی کا مقابلہ نسل پرستی سے نہیں کیا، اس کی بجائے وہ امن اور محبت کا اسلحے کے طور پر انتخاب کرتے۔ نیلسن منڈیلا مظلوموں اور ناانصافیوں سے لڑنے والے تمام لوگوں کے لئے ایک الہام تھے۔ 

دسمبر 2013 میں اپنی موت سے قبل، وہ اپنے ایک اور خواب کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئے، جب انہوں نے 2010 میں جنوبی افریقہ کے ورلڈ کپ کی میزبانی کی۔ یہ پہلی مرتبہ تھی کسی افریقی ملک کی۔ 

میں نے اپنے آپ سے پوچھنا شروع کیا کہ ہم جنگوں اور اسلحہ کی صنعت سے خود کو بے وقوف کیوں بناتے ہیں؟ ہم اب بھی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو بہتر بنانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ رنگ، زبان اور مذہبی عقائد جیسی کچھ چیزیں لوگوں کو متحد ہونے کی بجائے تقسیم کیوں کررہی ہیں؟ ہم اپنے آپ کو ملکوں اور سرحدوں کے تصور سے کیوں بیوقوف بنارہے ہیں، بجائے اس احساس کے کہ ہم سب مل کر اس دھرتی پر ہیں اور یہ زمین ایک ہی قوم ہے۔ کیوں، دنیا کے سب لوگ اس سیارے کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لئے منڈیلا کی جدوجہد کو جاری نہیں رکھتے، جہاں ہم سب جمہوری معاشرے میں رہتے ہوں؟ ایک آزاد اور پرامن معاشرہ، جہاں ہم سب کے لئے یکساں مواقع ہوں، جہاں لوگ ہم آہنگی میں شریک ہوں۔

محمد عل ریفائی

Add comment