آج کی دنیا میں، جب بہت سارے لوگ عدم تحفظ اور مشکل حالات میں رہتے ہیں اور ایسے ملک میں آباد ہونا چاہتے ہیں جہاں تحفظ اور ترقی کے مواقع ہون جن کی خواہش کی جائے۔
جب جرمنی نے 2015ء میں اپنی سرحدیں کھولیں تو اس خواہش کا کچھ حصہ ایک حقیقت میں بدل گیا ان لوگوں کے لئے یہی ایک حل رہ گیا تھا، جنہوں نے جنگ اور بھوک جیسے تکلیف دہ نتائج کا سامنا کیا تھا۔
جب لوگ ایسی خبریں پڑھتے اور سنتے ہیں وہ خوش ہو جاتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ ان کی موجودہ مشکلات جلد ختم ہو جائیں گی۔ ایک ترقی یافتہ ملک میں جانے اور تکلیف کو پیچھے چھوڑنے کیلئے وہ نیا خطرہ مول لیتے ہیں۔
ایسے ملک میں پہنچنے کے لئے لوگوں کبھی کبھی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ جاتی ہے۔ قیمت اپنے ایک خاندانی فردکو کھونا بھی ہو سکتی ہے۔ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے اپنے خوابوں کی دنیا میں پہنچنے کیلئے؟
ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا جنہوں نے اس عمل میں اپنے کسی حاندان کے فرد کو کھو دیا، سوائے اس کے کہ خاندان کے بچ جانے والے افراد کے ساتھ ایک نئے راستے پر چل نکلیں، نئی زندگی کی طرف، ایک نئے ملک میں۔
جرمن ریاست نے جنگ اور دیگر آفتوں سے متاثرہونے والوں کی حمایت کرنے کی کوششوں کو واضح کیا، اور ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ وہ بچوں کو ان کی نئی زبان اور ثقافت کے بارے میں سکھاتا ہے اور بہتر مستقبل کے لئے خوشحالی پیدا کرتا ہے۔
وہ لوگوں کو امید دلاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام منفی سوچیں ایک طرف رہ جائیں گی اور وہ ایک روشن مستقبل کو دیکھ سکتے ہیں بغیر پریشانیوں کے اور بہت ساری خوشیوں کے ساتھ تا کہ وہ اپنے نئے ملک کی ترقی میں اپنے حصہ ڈال سکیں۔
زندگی چلتی رہتی ہے یہ ہم پہ ہوتا ہے کہ ہم اچھائی یا برائی کا انتخاب کریں۔
میں نے اس مضمون میں لفظ “لوگ” بہت بار استعمال کیا ہے تا کہ لوگوں کو اس بات کا احساس ہو کہ وہ جو جنگ اور غربت کے ذمہ دار ہیں ان کا اثر لوگوں پر ایسا ہی پڑتا ہے جیساکہ خود ان پر۔ وہ ان کی بے عزتی نہ کریں اور جب وہ انہیں پناہ گزین کہہ کر پکاریں تو انہیں حقیر نہ سمجھیں۔ انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ہر کسی کی اپنی زبان ثقافت تہذیب اور اپنا مذہب ہوتا ہے۔
مختصراً انہیں بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔
Add comment