خون اور آگ

“ہمارا ملک ایک ناقابل بیان سانحے سے گزر رہا ہے۔ […] یونان غمزدہ ہے اور ہم جان بحق ہونے والے لوگوں کی یاد میں تین روزہ قومی سوگ منارہے ہیں۔ یہ یونانی وزیر اعظم، الیکسس سیپراس کے الفاظ تھے، جو کہ 24 جولائی کو ٹیلی ویژن پر بولے گئے، اور وہ کافی صدمے کا شکار ہوئے۔ 

کیا عام طور پانی سے آگ نہیں بجھتی؟ تو کیسے پانی اس آگ نہ بجھا سکا؟ کیوں ہوا اتنی شدت سے چل رہی تھی؟ گرمی کی تپش میں ہوا نے اپنی رفتار اور آگ کے شعلوں کو کیوں بڑھایا؟ 

یہ خبریں مجھے واپس اس سردی کے موسم میں لے جاتی ہیں جب میں نے اپنے جمے ہوئے پیروں کے ساتھ آپ کے جزیرے کی نرم سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ آپ میری مدد کے لئے پہنچے، آپ نے مجھے تھاما اور میرے برفیلے ہاتھوں کو اپنے گرم ہاتھوں میں مسلا۔ 

جیسے ہی میری نظریں آپ کے جزیرے کی خوبصورتی پر پڑیں اور میرے دل کو آپ کی مہربانی کا احساس ہوا، میں نے خود سے قسم کھا لی کہ اگر ایک دن میری آنکھیں وہ منظر بھول بھی جائیں پر میرا دل انہیں کبھی نہیں بھولے گا۔ میں نے دعا کی کہ ایک دن میں اس ہمدردی کا ازالہ کروں گی جو آپ سب نے مجھ پر ظاہر کی۔

میں نے اس اخبار میں آپ کے بارے میں لکھا ہے۔ میں نے لکھا، “آپ ہمدردی کے استاد ہیں اور میں آپ کی بہترین شاگرد ہوں۔” آپ بےشک میرے استاد تھے اور میں، پہلی جماعت کے شاگرد کی حیثیت سے جو میں ہوں، آپ کی مدد کرنے میں جلد بازی کر رہا ہوں۔ میں چاہتی تھی کہ میری مدد گہرائی تک پہنچے اور بھگو دے، اور میری شکرگزاری آپ کی رگوں میں دوڑے۔ لیکن جب آگ آپ کو جلا رہی تھی، تو نسل پرستی کے شعلے مجھ پر برس رہے تھے اور مجھے جلا رہے تھے۔

میں ایتھنز کے ایک اسپتال میں خون دینے کے لئے گئی تھی، لیکن انہوں نے مجھے کہا کہ افغانیوں کو خون دینے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کیوں اور انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی پالیسی ہے اور مذید اس طرح کے دیگر بہانے جو میری سمجھ سے باہر تھے۔ میں نے کہا، میں اپنا خون عطیہ کرنا چاہتی ہوں، اور اس کے لیے بھی آپ کو حکومت کی اجازت کی ضرورت ہے؟ کیا میں یہ تصور کرسکتی ہوں کہ آگ سے متاثر افراد ایک ایسے خون کی درخواست کررہے ہیں جو ایک افغان کے خون سے زیادہ سرخ ہو؟ میں اپنی بھڑکتی ہوئی روح اور جالتی ہوئی رگوں کے ساتھ ہسپتال سے باہر نکل آئی۔ 

عزیز دوست، آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں آپ کے پاس پہنچی، جیسے آپ میرے پاس پہنچے تھے جب میں یہاں آئی تھی۔ میں نے آپ کی مدد کو دل و جان سے قبول کیا، لیکن میری مدد کو انکار کردیا گیا۔

میں ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ گھر گئی، لیکن اس امید کے ساتھ کہ وہ آگ جو آپ کے پتے، آپ کے سامان، آپ کے گھروں اور آپ کے شہروں کو جلا رہی ہے وہ آہستہ آہستہ بجھا دیی جائے گی۔

*یہ مضمون “پناہ گزین پرندے” اخبار کے شمارہ نمبر 10 میں شائع ہوا ہے، جسے 20 اکتوبر 2018 کو اخبار “افیمریدا تون سنتاکتن” (ایڈیٹرز کے اخبار) کے ساتھ ملحقہ کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔

Add comment