“اٹھو”، اس کی ماں نے ایک صبح روتے ہوئے کہا۔ “آپ کو جانا ہے، آپ کو دیر ہو گئی ہے۔” لڑکے نے کوئی سوال نہ پوچھا اس نے صرف اپنا سامان تیار کیا اور جلدی سے تیار ہوگیا۔ بغیر کچھ جانے، اپنی بہن کا انتظار کرنے لگا۔ جب وہ بھی تیار ہوگئی تو، ان کے والدین نے ان کو گلے لگایا، رونے لگے اور کہا کہ جلدی جلدی اس خاص پتے پر جاو۔ جیسے ہی وہ وہاں پہنچے تو، بھائی اور بہن کو اندازہ ہوگیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہاں سمگلر ان کا انتظار کر رہا تھا اور اس نے بغیر کسی تاخیر کے انہیں ایک وین میں ڈال دیا۔ بہن بھائی خوف اور پریشانی سے کانپ رہے تھے۔ بہت طویل سفر کے بعد وہ بہت دور تک ایسی سرزمین پر پہنچے جس کا نام تک انہیں معلوم نہ تھا۔ وہاں آرام کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لڑکے کو اپنے دونوں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے صبح سے رات تک کام کرنا پڑتا۔ وہاں نہ تو امن و سکون تھا، نہ ہی کھلی افقیں۔لڑکا اس نامعلوم جگہ پر بہت ہی پریشان ہو گیا تھا۔ وہ، جسے اداسی کا پتہ ہی نہیں تھا، اس کے پاس افسردہ افکار کے سوا کچھ نہ تھا۔ اگر وہ اپنے دوستوں کو الوداع کرنے کے قابل ہوتا، یہ جاننے کے لئے کہ اس حالات میں اسے کیا ملا ہے، کاش کوئی اسے تھوڑا سا بھی سمجھنے والا ہوتا، کاش وہ اپنے دوستوں کو دوبارہ مل سکے اور ایک بار پھر ان سے بات کر سکے۔ یہی وہ چیز تھی جسکی اسے، کسی بھی چیز سے بڑھ کر ضرورت تھی۔ بہت سارے سوالات تھے جو وہ پوچھنا چاہتا تھا۔ ایک دن، اس نے خدا کی طرف رجوع کیا اور کہا، “تو آپ جیت گئے۔ تم نے ہم سے سب کچھ لے لیا۔ آپ یہ سب کچھ رکھ لیں، لیکن آپ مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں ابھی تک زندہ کیوں ہوں؟ کیا آپ مجھ پر ضلم کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے کیا کیا ہے؟ کیا یہ سب میری غلطی تھی؟ کیا میں نے اتنی دشواری نہیں کاٹی؟
اس دور دراز کی سرزمین پر زندگی دن بدن دشوار ہوتی چلی گئی۔ پھر، لڑکا کو اچانک محبت ہوگئی اور اس نے اسے بڑی امید دی۔ بدقسمتی سے، جس لڑکی سے اسے محبت ہوئی اس نے اسے چھوڑ دیا۔ ایسا لگتا رہا تھا کہ یہ دونوں بہن بھائی اس دور کی سرزمین میں پھنسے گئے ہیں۔ان کے لئے کچھ ٹھیک نہیں ہورہا تھا۔ دونوں ٹوٹے ہوئے دل تھے۔ پھر بھی، اس کی بہن نے ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کی، اور ہر شکست نے اسے اور بھی مضبوط بنایا۔ اسے محسوس ہوا کہ زندگی کے پاس اسے دینے کے لیے کوئی بھی مثبت چیز نہیں ہے۔ اسے اتنی دشواریاں اور تکلیف جھیلیں کہ اس نے کسی بھی مثبت چیز کو محض اتفاق سے سمجھنا شروع کر دیا۔ اس کی بہن ہمیشہ سے سرپرست فرشتہ کی طرح اس کے ساتھ کھڑی ہوتی اور اس سے لڑکے کو ان کی تمام پریشانیوں کا سامنا کرنے، کسی بھی مشکلات پر قابو پانے اور اپنی زندگی میں اچھی اور مثبت چیزوں کو تلاش کرنے کی کوشش میں مدد ملی۔ ان بہن بھائی نے دوبارہ کبھی اپنی فیلی کو نہیں دیکھا۔ وہ کامیابی کے راستے پر اکیلے ہی مارچ کرنے لگے، وہ ناممکن کو حاصل کرنے، خوشحالی اور کامیابی کی سیڑھی پر خود چڑھنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
ایک پاگل لڑکا
جس نے اتنا سیکھا
سکون سے نہ رہا
لیکن بارش میں چلتا
تھکا اور ٹوٹا ہوا
کاش اس کے ساتھ کوئی کھڑا ہوتا
کوئی سمجھنے والا
کوئی اس کا درد کم کرنے ولا۔
کاش وہ اپنے وطن ہی لوٹ سکتا
گھر میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے
کاش یہ کچھ نہ ہوتا
کاش کوئی حل ہوتا
کاش اسے خوشی مل سکتی
کاش، کاش…
Add comment