جب میں عراق میں رہتا تھا، تو میں سمجھتا تھا کہ تھیٹر کوئی بورنک اور ناخوشگوار چیز ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اس کا کوئی مقصد نہیں نظر آتا تھا کیونکہ ڈرامے صرف تفریح کے لئے ہوتے ہیں! ہنسنا، کھیلنا اور رقص کا غلبہ حاصل کرنا۔ اب، جب میں ایتھنز میں رہتا ہوں، تو مجھے دو ڈرامے دیکھنے کا موقع ملا، جس سے میں تھیٹر کے بارے میں اپنی رائے کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
2 جولائی کو میں نے پروگرام “سٹی زین شپ 2” کے ڈراموں میں شرکت کرنے کے لئے فرانسیسی انسٹی ٹیوٹ آف ایتھنز کا دورہ کیا۔ پہلا ڈرامہ تھیٹر گروپ نے نوعمر اداکاراؤں اور اداکاراؤں کے ساتھ فرانسیسی مجموعہ “جی پارس À زارٹ” کے ذریعہ پیش کیا۔ دوسرا “بنیٹورک فور چلڈرن رائٹس” کے نوجوان تھیٹر گروپ کی طرف سے پیش کیا گیا۔ پہلے ڈرامے کا عنوان تھا “سنباد کا آخری سفر”۔ یہ ان کے سفر کے دوران مہاجرین کے “اوڈیسی” کے بارے میں تھا اور یہ فرانسیسی زبان میں تھا۔ وہاں چیخ و پکار، فائرنگ اور سنباد نام کا ایک کردار تھا، جو کشتی چلا رہا تھا۔ پناہ گزینوں کو کشتی میں بٹھایا گیا، جس میں ان سب کے لئے اتنی گنجائش نہیں تھی۔سندھ آباد جارحانہ انداز میں پناہ گزینوں پر چیخا اور ان میں ایک حاملہ عورت بھی تھی، جس نے کشتی پر جاتے ہوئے بچے کو جنم دیا۔ اور آخر کار جب پناہ گزین اپنی منزل مقصود پر پہنچے تو ان کا خیرمقدم بلکل بھی دوستانہ طریقے سے نہ کیا گیا، صرف پولیس اہلکاروں اور بندوقوں کی فائرنگ سے۔
دوسرے ڈرامے کا عنوان تھا “سفر نامہ O.” اور اس کا مضمون یونانی داستانوں میں سے اودیسیئس اور تروجن جنگ کی کہانی تھی۔اسے انگریزی اور یونانی دونوں زبانوں میں پیش کیا گیا تھا۔ اودیسیئس کے ترائے کی جنگ میں لڑے اور جیتنے کے بعد، اس نے اپنے لوگوں کے ہمراہ اتھاکا تک کا طویل سفر شروع کیا۔ اس سفر میں بہت ساری مشکلات تھیں اور اس کے بہت سے لوگ گم ہو گئے تھے۔ آخر کار وہ ااتھکا پہنچے تو، اوڈیسیئس، جو کہ ایک بادشاہ بھی تھا، جب وہ واپس اپنے محل میں آگیا اور اس کی بیوی، جو اس کے نام نہاد شادی کے طاب گاروں کی طرف سے گھیری ہوئی تھی، جو اس سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ وہ پورے 20 سالوں سے اس کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی اور وہ شادی کے طاب گاروں کو بے دخل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
پرفارمنس کے بعد ہم نے دو شرکاء کا انٹرویو لیا اور ان سے ان کے تجربے کے بارے میں پوچھا۔ ” نیٹ ورک فور چلڈرن رائٹس” کے نجوان تھیٹر گروپ کے ایک اداکار محمد نے ہمیں بتایا کہ یہ پہلی دفہ وہ کسی ڈرامے میں پرفارم کررہا تھا۔ شروع شروع میں وہ بہت گھبرا گیا تھا، لیکن پھر، جب وہ اسٹیج پر گیا تو، “سب کچھ بہت اچھا تھا!”۔
کارلا، جو کہ تھیٹر گروپ کے فرانسیسی کولیکٹو “جی پارس À زارٹ” کی اداکارہ ہیں، نے بتایا کہ اس ڈرامے میں حصہ لینے سے وہ پناہ گزینوں کو سفر کے دوران درپیش خطرات سے بھی واقف ہوگئیں ہیں اور ان کو نئے حالات کو اپنانے کی کوشش کی مشکلات کے بارے میں بھی واقف ہوگئیں۔ “تھیٹر ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنے، نئے لوگوں سے ملنے، نئی ثقافتوں، رہنے کے نئے انداز اور ان سب کے مطابق ڈھالنے کا درس دیتا ہے، تاکہ ہم متحد ہوسکیں”۔
جیساکہ میں، ایک تماشائی، اداکاروں اور اداکاراؤں کی آنکھوں میں اضطراب، خوف اور اذیت کی عکاسی اسی طرح دیکھ سکتا تھا جس طرح میں اس تجربے سے گزرا ہوا ہوں، تھیٹر کے کردار میں نہیں، بلکہ ایک افسوسناک حقیقت کے طور پر۔ انہوں نے حیرت اگیزی سے یہ کام کیا۔
Add comment