Photo by Elias Sharifi

صحافیوں کو کھلا خط

ہیلو!

میں ان متاثرین میں سے ہوں جن کے بارے میں آپ نے پچھلے پانچ سالوں میں ہزاروں مضامین لکھے ہیں۔ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ آپ نے بھی میری زندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ کیا آپ کو احساس ہوا ہے کہ میں کون ہوں؟

چلیں میں آپ کو اس اہم کردار کی یاد دلاتی ہوں جو آپ نے 2015 کے بعد سے میری زندگی میں ادا کیے۔ کیا آپ کو ساحل سمندر پر پڑے اس مردہ بچے کی تصویر یاد ہے؟ ایک بہت ہی طاقتور تصویر، اور اس کی اشاعت کے بعد لوگوں کو احساس ہوا کہ کھلی سرحدوں کا ہونا کتنا ضروری ہے۔ کیا آپ ایک قلم کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں؟  کیا آپ اپنے میموری کارڈ میں محفوظ کردہ تصاویر کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں؟ 

ہاں، میں وہی ہوں جس کے بارے میں آپ بہت ساری خبریں لکھتے ہیں۔ ان کے اثرات میں  اپنی روزمرہ کی زندگی پر پڑتا دیکھ سکتی ہوں۔ کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ وہ اثرات کیا ہيں؟ مثال کے طور پر ، جب آپ “مہاجروں کے سیلاب” اور “مہاجرین کے بحران” کے بارے میں لکھتے ہیں۔ جب یہ جملے آپ کے مضامین میں ظاہر ہوتے ہیں ، تو کیا آپ جانتے ہیں کہ میرے لئے ان کا کیا مطلب ہے؟ لوگ سیلابوں سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ انہیں تباہ کن مانتے ہیں۔ لوگ بحرانوں سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ آپ کو اس آگاہی ہونی چائیے چاہے آپ کو اچھا لگے یا نہ لگے (اور صرف آپ کو پتا ہو اگر آپ کرتے ہو ) کہ اس طرح کے مضامین کی اشاعت  ، اس طرح کے مضامین کی اشاعت سے لوگ ہم سے ڈرنے لگتے ہیں، پناہگزینوں سے، بلکے نفرت بھی کرنے لگتے ہیں، جس طرح سے وہ سیلاب اور بحرانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ 

اور ایک اور سوال: آپ میں سے بہت سارے صحافی پناہ گزینوں کو مظلوم، لمبے عرصے سے تکلیف اٹھانے والے اور لاچار افراد کی حیثیت سے کیوں پیش کرتے ہیں؟  یہ ایک قابل قبول وضاحت ہے،لیکن ہم اسے ہر روز نہیں پڑھنا چاہتے۔ کیا آپ لوگوں کے جذبات کو اپیل کررہے ہیں؟ اگر یہ بات ہے تو، پھر ایک پناہگزین ہونے کی حیثیت سے  بتا دوں کہ ہمیں رحم کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

لوگوں کو حقیقت جاننے کی ضرورت ہے۔ چلین میں آپ کو ایک مثال پیش کرتی ہوں جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ ایک خاتون جو سر پر سکارف پہنے ہوئے کیمپ کے ایک کونے میں اپنے گھٹنوں کو بازرئوں میں لیئے  بیٹھی ہوئی تھی۔تو ایک فوٹو صحافی نے کہا کہ یہ منظر پناہ گزینوں کی صورتحال کو بہت عمدہ طریقے سے بیان کررہا ہے۔ جہاں تک اسنےدیکھا کہ، وہ عورت اپنے گھٹنوں پر جھک کر رو رہی تھی – جسے کوئی بھی دیکھنے والا حرکت پذیر ہوجائے۔ میں اسکے قریب گئی اور دیکھا کہ وہ بالکل مختلف تھا۔ میں نے اس عورت کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھا۔ وہ واقعی جھکی ہوئی تھی، لیکن اپنے بچے کے چہرے کو چومنے اور اگلے ہفتے خاندان کے دوبارہ ملاپ ہونے کی خوشخبری سنانے کے لئے اپنے موبائل فون کی سکرین  پرجھکی ہوئی تھی۔ “کاش اس نے سامنے سے دوسری تصویر بھی کھینچ لی ہوتی!” میں نے خود سے کہا۔ پہلے منظر میں تھکاوٹ اور تھکن کے علاوہ کوئی دوسرا پیغام نہیں تھا، جبکہ دوسرے منظر کا پیغام امید کی خوشی کے اظہار کا ہوتا۔ 

قریب آؤ تو حقیقت کو دیکھنا آسان ہوجائے گا! اگر فوٹوگرافر تھوڑا سا قریب جاتا تو وہ اس  کی آنکھوں میں خوشی اور فون کی سکرین پر ایک ماں کی طرف سے اپنے بچے کو دیئے گئے بوسے کو ریکارڈ کرسکتا تھا۔ دنیا صرف کیمروں کے لینز اور آپ کی طرف سے لکھے گئے مضامین کے الفاظوں سے ہمیں جانتی ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ دوسرے صحافی بھی کیون کارٹر، فوٹو گرافر کی طرح اپنا اختتام کریں جس نے اس بچے اور گدھ کی مشہور تصویریں کھینچی تھیں۔ وہ اس تصویر کے بارے میں دیئے گئے تبصروں سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے افسردہ ہو کر خود کشی کرلی۔ تاہم، اگر وہ قریب گیا ہوتا تو، وہ نہ صرف اس بچے کو بچاتا، بلکہ اپنے آپ کو بھی بچا لیتا۔ ڈرو نہیں قریب آو۔  میں آپ میں سے ان لوگوں سے بات کر رہی ہوں جو موریہ کیمپ تک کا سارا سفر کرتے ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ صورتحال کس قدر نازک ہو چکی ہے، اور کوڑے دان کے ٹیلے، نام نہاد حفظان صحت کی خدمات، ان بچوں کے بارے میں جن کے پاس کپڑے نہیں ہیں یا پھر ان حواتین کے لیے جو رو رہی ہیں۔ 

کیا آپ نے موریہ میں پیار ڈهونڈنے کی کوشش کی ہے؟  کیا آپ نے اس جوڑے سے پوچھا ہے کہ 17 سال میں، اس نے یہ سیکھا ہے کہ والدین بننا کیا ہے؟ کیا آپ موریہ کے باشندوں کے لئے کوئی خوشخبری لے کر آئے ہیں؟ کیا آپ نے انہیں اس خاندان کی تصویر دکھائی ہے جو ایک ماہ قبل موریہ سے رخصت ہوکر ایتھنز چلا گیا تھا؟ کیا آپ نے انہیں بتایا کہ اس جہنم کا آخر  ہے؟ کیا آپ نے انھیں بتایا ہے کہ آپ بہت سارے ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو اس جہنم کے اندر رہ کر بھی مضبوط اور پر امید ہیں، یا آپ نے انہیں صرف یہی یاد دلادیا ہے کہ یہ ایک جہنم ہے بس؟ آپ کو انہیں یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں صرف یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صورتحال ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی ہے۔ آپ ہمیشہ نسل پرستوں کے حملوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ آپ اس شخص کی کہانی کیوں نہیں بتاتے جو ایک پناہ گزین کی کہانی سننے کے بعد نسل پرستی کے گروہ سے تعلق  ختم کر دیتا ہے۔

میں آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ اس قسم کی خبریں شائع کیا کریں، چاہے یہ اکثر و بیشتر نہ بھی ہوں، چاہے آپ صرف ایک جملہ ہی لکھیں۔ فکر مند نہ ہوں کہ اس طرح کی خبریں پھیلیں گی نہیں۔ آج  کے معاشرے کو امید کی ضرورت ہے، اور میرا مطلب ہے تمام انسانی معاشرہ، نہکہ صرف مہاجرین کے۔ بہت سی دوسری ناخوشگوار خبروں کے درمیان ان کہانیوں کو بتانا وہ چیز ہے جیسے آج کے دن کی امید کے شعلہ کو زندہ رکھنا ہے۔

اپکی خیر خواہ, 

Add comment