“اپنی قوم کی تباہی روکنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اپنے فادر لینڈ کو دوبارہ ایک قومی ریاست بنانے کے لئے جدوجہد کرنا ہے، یونان جس کا تعلق صرف یونانیوں سے ہو گا،” گولڈن ڈان کے رہنما، نیکولوس مائکالوالیکوس، نے مارچ 2019 میں ایک مضمون میں لکھا۔ تاہم، اس کی نو نازی تنظیم کے نسل پرستانہ جرائم، ستمبر 2013 میں پولوس فائساس کے قتل سے پہلے ہی واپس آچکے تھے، جس کے بعد یونانی پولیس نے گولڈن ڈان کی قیادت کے ساتھ ساتھ اس کے پارٹی کے دسیوں عہدیداروں اور ممبروں کو بھی گرفتار کیا جن پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا شبہ تھا۔
گولڈن ڈان واچ کے مطابق، گولڈن ڈان کے خلاف 20 اپریل 2015 کو شروع ہونے والے مقدمے کی نگرانی کا ایک اقدام، نیو نازی تنظیم خوف کی ایک حکومت قائم کرنے اور اپنے اقدامات کو خفیہ رکھنے کی کوشش میں رہی۔ اگرچہ اس مقدمے کی کارروائی نے نسل پرستانہ کے درجنوں جرائم کو منظر عام پر لایا ہے، زیادہ تر تارکین وطن اور مہاجرین کے ساتھ کئے گئے جرائم کو۔
عوام میں نسل پرستانہ حملوں سے وابستہ نظر نہ آنے والے جرائم کی نشاندہی کرنے اور ان کو اجاگر کرنے کے لئے، یونان میں روزا لکسمبرگ فاؤنڈیشن آفس اور ہیومن رائٹس 360 نے 25 فنکاروں کے ساتھ مل کر اس مہم کو تیار کیا۔ ایتھنز کا ایک سیاہ نقشہ’۔ 13 مارچ کو ہم ایتھنز کے ٹیکنوپولس سٹی میں ان کی نمائش کے افتتاحی دورے پر گئے تاکہ معلوم کریں کہ یہ نقشہ کیا ہے۔
سب سے پہلے، ہم نے یونان میں مجود روزا لکسمبرگ فاؤنڈیشن کے دفتر کی پروجیکٹ منیجر مسز الیکترا الیکژندروپولو سے گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ، “ہماری تشویش ایتھنز، پیریاس اور اس کے مضافاتی علاقوں میں ہونے والے نسل پرستانہ حملوں کو ظاہر کرنا اور ان پر روشنی ڈالنا ہے۔” انہوں نے بتایا کہ ہم نے 50 ہونے والے حملوں سے شروع کیا جس میں تین قتل شامل ہیں، جس میں ایک فائیساس کا، ایک علیم کا، جسے 2011 میں ایک زبردست دھاوے کی صورت میں قتل کیا گیا تھا، اور شہزاد لقمان کا قتل، جسے ایک دن صبح قتل کیا گیا تھا جب وہ سائیکل پر جا رہا تھا، شامل ہیں۔ ہم نسل پرستانہ حملوں کی روشنی میں روشنی ڈالنا چاہتے تھے لہذا ہم نے 50 کیسوں سے آغاز کیا۔ ہم نے ایک QR کوڈ ڈیزائن کیا جو کہ ایک اورینج رنگ کے ایک بڑے اسٹیکر پر چھپا ہوا ہے اور ہم نے انہیں ان علاقے کی دیواروں پر چھاپا جن علاقوں میں یہ حملے ہوئے تھے۔ اگر آپ کوڈ کو اپنے اسمارٹ فون سے اسکین کرتے ہیں تو آپ کو حملے کے ویب پیج پر منتقل کردیا جاتا ہے”۔
اس کے بعد ہم نے روزنامہ اخبار “ایفیمیریدا طوں سینتاکتون” کی ڈیزائنر اور کارٹونسٹ مسز لوئزا کراجوریو سے پوچھا، کہ انہوں نے اپنے مہم کے لئے اپنی السٹریشن بنتے ہوئے کیا محسوس کیا۔ “میں نے جس حملے کی مثال دی وہ مجھے زاک کوستوپلوس کے قتل کی یاد دلاتا ہے، جس نے مجھے یکساں صدمہ پہنچا، کیوں کہ کسی نے بھی مداخلت بھی نہیں کی جب یہ سب ہو رہا تھ۔ میں اس بات کو اجاگر کرنا چاہتی تھی کہ تشدد کے واقعات پر ردعمل دینا کتنا ضروری ہے۔ اگر لوگوں نے مداخلت کی ہوتی تو کچھ نہ ہوتا۔ میری رائے مطابق، یہ حملوں سے زیادہ چونکا دینے بات ہے کہ، لوگ واقعات کو رکنے میں شامل نہیں ہونا چاہتے ہیں۔ اسی لئے شہر میں یہ یاد دلانا بہت دلچسپ ہے کہ اس طرح کے حملے بہت ہوتے ہیں اور ان کی روک تھام کے لئے ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہیں۔
آخر میں ، ہم اس کی پہلی اشاعت کے بعد، “”ایفیمیریدا طوں سینتاکتون” کے کارٹون نگار مسٹر مایکلایز کاونتوریس سے ملے۔انہوں نے ہمیں بتایا کہ تصویر پیش کرنا ایک بہت ہی طاقتور ذریعہ ہے، اس سے پیغام آسانی سے پہنچاتا ہے، اور ہمیں اسے نہ بھولنے میں مدد کرتا ہے۔”ہمیں آج سے کونسی چیز نہیں بھولنی چاہئے؟” ہم نے پوچھا.“یہ نسل پرستی اور غیر ملکیوں سے نفرت کے خلاف ایک نمائش ہے۔ ہمیں اسے نہیں بھولنا چاہئے ، “انہوں نے کہا۔
Sketches by Louiza Karageorgiou, Mihalis Koundouris
Add comment