میں نے اسکول میں اپنے استاد سے”پناہ گزین پرندے” اخبار کے بارے میں سنا کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے اخبار کے ساتھ ساتھ ایک ریڈیو شو بھی نشر کیا ہے، جس میں وہ اپنی روزمرہ زندگی اور سرگرمیوں کے بارے میں بتاتے ہیں اور ان کو کیسے بڑھانے کی امید کرتے ہیں۔ پھر اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ میں بھی اس ٹیم کا حصہ بننا چاہتا ہوں، پر یہ نہیں جانتا کہ وہ مجھے قبول کریں گے یا نہیں۔ پھر، میں نے ان کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ اجلاس کے روران میں نے دیکھا کہ ٹیم میں شامل ہونے کے لئے اور بھی بہت سارے لوگ موجود تھے۔ اریستیا اور لڑکیوں نے بتایا کہ کس طرح ہم سب اس اخبار کو بڑہانے میں حصہ سکتے ہیں۔
میں نے اعصابی کے باوجود اس جلسہ میں اپنے آپ کو رجسٹرڈ کروایا، اگلے ہفتے کے اجلاس میں، بہت اچھا طریقے خیر مقدم سے بہت آرام دہ محسوس کرنے لگا۔ اس وقت سے میں ٹیم کے رکن ہوں۔
میں ہمیشہ سے یہ سوچتا تھا کہ صحافت بہت آسان ہوتی ہے، لیکن اس میں سنجیدگی سے ملوث ہونے کے بعد میں سمجھا کہ جو میں سوچتا تھا یہ اسکے بہت برعکس ہے۔ پھر بھی، میں گروپ کے رکن بنا رہا۔ میں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور ہر دن سیکھ رہا ہوں۔
میں اس ٹیم کا حصہ بن کے بہت خوش ہوں۔
Add comment