آج کل زندگی کے کھیل میں ہمارے ہاتھ ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج کل ہمارے ہاتھ بھی ہماری طرح نازک اور کمزور ہوچکے ہیں۔ کچھ ہاتھ ان مرنے والے ہاتھوں کے لئے افسردہ ہیں، جن کی ہمدردی اندرونی یادداشت بن گئی ہے۔ ہمارے ہاتھوں کے پاس بتانے کے لئے بہت سی کہانیاں ہیں، جیسا کہ اب انہوں نے سیکھ لیا کہ کیسے مختلف سلوک کیسے کرنا چاہیے۔
میری اپنی آنکھیں اور ہاتھ ہمیشہ سے ہی مواصلات کا پل ہوتے، محبت اور شفقت کی علامت۔ تاہم، اب، ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس پل کا ایک حصہ گرنے والا ہے۔ ان دنوں میں اپنے ہاتھوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرتی ہوں، لکھتا ہوئے، رات کے وقت کتابوں کے صفحات آگے کرتے ہوئے، موم بتیاں روشن کرتے ہوئے اور یوگا کی مشقیں کرتے ہوئے۔
تاہم، پھر بھی میں اپنے ہاتھوں سے ڈرتی ہوں! میں انہیں دستانوں سے ڈھانپتی ہوں اور اینٹی سیپٹیک کا استعمال کرتی ہوں اور، اس کے نتیجے میں، وہ ناہموار ہوجاتے ہیں۔ اس سے مجھے راحت ملتی ہے، ان کی ملائمت والا حصہ وہ ہوتا ہے جس سے میں اپنے قریبی لوگوں کو میسج کرتی اور ان دوں مالٹے کا کیک بناتی۔ میرے ہاتھوں نے اپنی اور دوسروں کی زندگی کے واقعات کے بارے میں ہزاروں کہانیاں لکھیں ہیں۔ انہوں نے رومینس اور خوشیوں کے بارے میں لکھا ہے، بلکہ غموں کے بارے میں بھی۔ میرے ہاتھوں نے کئی بار چائے بنائی ہے اور بہت سے دروازے بھی کھولیں ہیں۔ جب میں چھوٹی تھی اور چل نہیں سکتی تھی، تو میں اپنے ہاتھوں کا استعمال کرتے ہوئے چلتی تھی۔ ان دنوں جب میں خوش ہوتی تو میرے ہاتھ تالیاں بجاتے اور ناچتے، غمزدہ راتوں میں وہ میرے آنسو مٹاتے، لیکن جب میں ڈرتی تو وہ لرز اٹھے تھے۔ اپنے ہاتھوں سے، میں اپنے بالوں کو جوڑتی تھی۔ ان ہاتھوں کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے!
ان اجیب دنوں میں میرے ہاتھوں نے مجھے کبھی تنہا نہ چھوڑا۔ کبھی کبھی تو وہ مجھے خود ہی گلے لگا لیا کرتے۔ صرف اتنا ہی کہ کہیں میں گلے ملنے کا احساس ہی نہ کھو دوں۔ کبھی کبھی وہ میرے بالوں کو ہلاتے، تاکہ کہیں میں یہ نہ بھول جائوں کہ لاڈ کیا ہوتا ہے…تاکہ میں یہ نہ بھول جائوں کہاچھے دن آرہے ہیں۔ وہ دن جب ہم ایک بار اپنے قریبی لوگوں کا ہاتھ پکڑیں گےجو ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔۔
آپ بھی قرنطین کے دوران، اپنے ہاتھوں کی کہانی لکھ سکتے ہیں اور اسے پر ہمیں بھیج سکتے ہیں: [email protected]
Add comment