بین الاقوامی کنونشن کے مطابق بچوں کے حقوق، بچوں کے کچھ حقوق موجود ہیں، لیکن میں جن مسائل کے بارے میں بحث کرنا چاہتی ہوں وہ ان میں میں شامل نہیں ہیں۔
میں ہر نوجوان کی انفرادی آزادی کے بارے میں لکھنا چاہتی ہوں۔ آپکو بہترین طریقہ سے بتانے کے لیے، اپنے ذاتی تجربے کے بارے میں بتانا ہے۔
کچھ مہینے پہلے ہم ایلینکو میں پناہ گزین کیمپ میں رہ رہے تھے جہاں ہم نے ڈرائنگ سبق میں، دیگر سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
ذاتی طور پر میں ڈرائنگ اتنی پسند نہیں ہے، یہاں تک کہ، میرے بھائی، بہن اور میں کلاس میں جاتے تھے۔
کوچھ غرصے بعد، ہمارے کام کی ایک نمائش منقعد کی گئی تھی لیکن میں خاص طور پرشوقین نہیں تھی، کیونکہ اس وقت ہم کابل میں کئی دھماکوں کے بارے میں خبریں سن رہے تھے، اور خبریں خون اور مردہ لاشوں سے بھرے ہوے شہر کی سڑکوں کی تصاویریں دکھا رہی تھیں۔ خاص طور پر ایک تصویر نے میری توجہ کو فروغ دیا۔ وہ ایک نوجوان لڑکے کی تصویر تھی جس کے جسم کو نصف میں لفظی طور دو حصوں میں کاٹ دیا گیا تھا۔ جب بھی میں اس تصویر کو دیکھتی، میں درد اور مصیبت کے آنسو روتی۔
نمائش کی تاریخ مقرر کی گئی تھی اور اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن میں نے اپنے دماغ کو اس دھماکے سے نہیں ہٹا سکی جس نے اس نوجوان سے اس کی زندگی چھین لی۔
میں چاہتی ہوں کہ دنیا اس منظر کو دیکھنے کے لئے، اس مصیبت اور اس درد کو میری طرح محسوس کرنے لئے اس درد کی حد تک پہنچنے۔
میں چاہتی ہوں کہ سب اس چیز کو جانیں کہ میرے شہر میں انصاف اور آزادی کے لئے مظاهرے کرتے ہوئے بہت سے لڑکوں اور لڑکیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
جب میری بہن نے مجھے بتایا تھا کہ نمائش کے لئے کام جمع کروانے کی آخری تاریخ آگئی ہے اور میرے علاوہ سب نے اپنا کام مکمل کر لیا تھا۔
اچانک سے میں نے اس جوان لڑکے کی تصویر کو نصف کرنے کا فیصلہ کیا جس کا جسم دو حصوں میں زمین پر پڑا ہوا تھا۔ وہ میرے لئے مشکل تھا، لیکن میں نے اسے شروع کیا۔ میں کلاس روم میں گئی، وہ رنگ لیے جن کی مجھے ضرورت تھی اور میں بنانا شروع ہوگئی۔ میں سوچتی کہ میں نے پینٹنگ مکمل طور پر ختم کردی ہے۔ ایسا لگا کہ میں بہت جلدی میں اور بے تابی تھی، میں نے اپنے ہاتھ پے چھوٹا سا زخم کیا اور شفقت کے نشان کے طور پر اپنے خون کو پینٹنگ میں شامل کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں نے اپنے شہیدوں کے درد کے لئے ہمدردی اور حمایت ظاہر کر رہی ہوں۔ میں نے اس پینٹگ کو اپنی روح سے بنایا تھا، لہذا جب میں نے اسے مکمل کیا تو میں نے بہت مطمئن محسوس کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ کیمپ کے رہائشی میری آرٹ کے کام پر مہربان نہیں ہوئے۔ میں کسی کو اس کا الزام نہیں دیتی۔ میرے والد نے ہمیشہ یہ کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ دوسرے لوگ آپ کو کیسا دیکھتے ہیں یا آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، فرق ہمیشہ اس چیز سے پڑتا ہے کہ آپ کس طرح کے انسان ہو۔ “کیا آپ اس چیز کو صحیح سمجھتے ہو” وہ کہتے تھے۔ ان کے مشورے میرے دل پر نقش ہو گئے۔
میں نے اپنی پینٹنگ کو منتظمین کو جمع کروائی جس کو مندرجہ ذیل دن کو نمائش میں لٹکایا گیا۔ افتتاح کے دن وہاں، کیمرے مین، صحافی اور ناقدین موجود تھے۔ میں نے یہ نہیں سوچتا تھا کہ کوئی بھی میری پینٹنگ پسند کرے گا لیکن وہاں بہت سارے مہمان تھے جنہوں نے اس میں بہت دلچسپی ظاہر کی۔
وہ اس کے سامنے کھڑے ہو کر، بہت دلچسپ لگ رہے تھے۔ میں ان کو وضاحت کرنا چاہتی تھی کہ یہ پینٹنگ کابل شہر میں حقیقی زندگی کے واقعات کی تصویر سے کوچھ ذیادہ نہیں۔ بہت سے لوگ نے صرف پینٹنگ ہی کی نہیں بلکہ میری بھی تصاویر لیں۔ میں نے نمائش کے افتتاح سے بہت لطف اندوز ہوئی۔ کچھ دنوں کے بعد، کیمپ کے انچارج نے ہمیں ایک اخبار دکھایا جس میں ہم سب کی بہت ساری تصاویر تھیں: ڈرائنگ کلاس کے بچوں کی ، اساتذہ کی، میرے بھائی کی، بہن کی اور میری۔ وہاں گروپ کی تصویریں تھیں بلکہ میرے اکیلے کی بھی ایک بھی تھی کیونکہ، کیمپ کے انچارج نے کہا کہ، ٹیلی ویژن پر بھی ہمارے تمام کارناموں کے بارے بات ہوئی، بلکہ خاص طور پر میرے بارے میں۔ تقریبا چار مہینے بعد مجھے پتہ چلا کہ کسی نے فوٹوشاپشاپ کا استعمال کرتے ہوئے میری ایک نوجوان آدمی کی تصویر بنائی جسے انہوں نے فیس بک پر پوسٹ کیا اور اس کا سب کے ساتھ اشتراک کیا۔
اس چیز نے مجھے بہت دکھی کیا بلکہ غصہ بھی دلایا۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسی چیزیں کرتے ہیں۔ کیا وہ ایسی شرمناک چیزوں کو کرنے کے لئے شرمندہ نہیں ہیں؟
اگرچہ میں نے اس کا انچارج ميں اندراج کرایا، کچھ دنوں بعد ایسی فوٹوشاٹ کی گئی تصویر پھر فیس بک پر شائع ہوئی، اس بار میری بہنوں کے ساتھ، ایک لڑکے کی اور میری۔
فیس بک پر میری تصویر ڈالنے کے لئے کسی نے بھی میرے سے نہیں پوچھا۔ کسی نے بھی نہیں پوچھا کہ کیا وہ اس تصویر لے کر اور فوٹوشاپ کے زرئے اسے جعلی بنائے جس سے مجھے ہے۔
میرے حق کو محفوظ ہونا چاہئے، لیکن کسی نے بھی اس کے احترام نہیں دکھایا۔
Add comment