پوری دنیا میں، تقریبا دس میں سے ایک فیصد بچے کام کرتے ہیں، جبکہ، یونیسف کی چائلڈ لیبر پر ایڈوکیسی بریف کے مطابق، کورونا وائرس وبائی مرض کے دوران اس کی فیصد میں اضافے کا خطرہ ہے۔
یہ بچے اپنے والدین کی ان لیے مناسب زندگی کو یقینی نہ بنانے، ان کی بنیادی ضروریات کو پورا نہ کرنے اور انہیں اسکول بھیجنے کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے ملازمت پر مجبور ہیں۔ ایسی بہت سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، جیسا کہ والدین کی علیدگی، جنگیں، یا ان کے والد کی موت۔ متعدد بار، یہ بچے ان بالغوں کے ساتھ مشغول ہو رہے ہیں جو بچوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، جبکہ ان میں سے بہت سارے جنسی زیادتی کا نشانہ بن رہے ہیں یا اپنے مالکوں کا برا سلوک برداشت کرتے ہیں۔
جب ہمیں اپنا ملک شام، چھوڑ کر عراق جانا پڑا تو مجھے وہاں جا کر کام کرنا پڑا کیونکہ میرے والد ہمارے ساتھ نہ آسکے تھے۔ وہاں میں ہی کام کرنے کے قابل تھا کیونکہ میری بہن اور میری والدہ کے لئے وہاں کوئی نوکری نہ تھی، اور جبکہ میرا بھائی تب بہت چھوٹا تھا۔
جب میں نے کام شروع کیا تو مجھے صحافی بننے کے خواب کے ساتھ ہی اسکول چھوڑنا پڑا! اس وقت مجھے ایسا لگا جیسے میں ناکام ہو گیا ہوں اور میں ہر وقت افسردہ رہنے لگا۔ میں نے بہت سخت ملازمتیں کیں، جیساکہ کہ مزدوری اور گلیوں کی صفائی کرنا، جہاں مجھے اپنے مالکوں کی طرف سے بدسلوکی کا سامنا بھی کرنا پڑا، جوکہ کبھی کبھی ہمیں مارتے پیٹتے بھی تھے۔
دوسرے بجوں کو اسکول اور یونیورسٹی جاتے ہوئے دیکھ کر اور اپنے جیسے دوسرے بچوں کو کام کرتے دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا اور محسوس ہوا جیساکہ میں ناکام ہو گیا ہوں۔ ان میں سے بہت سے بچے جنھیں زبردستی مزدوری پر مجبور کیا گیا تھا انہوں نے منشیات کا استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ میں ان سب سے اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب رہا۔
مزدوری اور جنگوں میں زبردستی شامل کرنے والے بچوں کی بڑی تعداد دنیا کے مستقبل کو خطرے میں ڈالتی ہے۔ حکومتوں اور تنظیموں کو ان تمام لوگوں کو سزا دینا ہوگی جو بچوں سے کام کرواتے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ بچوں کے پاس جینے کے لئے ان کی ضروریات کی چیزیں مجود ہیں اور تعلیم کا حصول سب سے پہلے ہے، نہ صرف کنبہوں کے لئے، بلکہ حکومت کے لئے بھی، تاکہ بچے اپنے بچپن سے لطف اندوز ہوسکیں اور اپنے مقاصد کو حاصل کرسکیں۔ کیونکہ مستقبل ان کے ہاتھ میں ہے اور ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہوگی۔
Add comment