Photo by Elias Sharifi

سنہرے بالوں والی میری ننی بچی

اس دنیا کے ایک کونے میں جہاں میں بڑی ہوئی، وہاں موسم خزاں کے آنے تک، سب آہیں بھرتے، اور کہتے، “وہ موسم آگیا ہے جس میں ہمیں پتہ ہی نہیں کہ پہننا کیا ہے، گرم دنوں کے ساتھ ساتھ سرد غروب آفتاب اور  کبھی کبار تو آسمان بارش کی آرزو میں رہتا ہے، دن چھوٹے اور رات لمبا ہوجاتی ہیں۔

کیوں اتنی جلدی اندھیرا ہوجاتا ہے؟  کیوں گھر کے صحن کو مسلسل جهاڑو کی ضرورت پڑتی ہے؟ کیوں صحن میں مجود تالاب پتوں سے بھر جاتا ہے اور اسے صفائی کی ضرورت پڑتی ہے؟  

لیکن، جیساکہ میں اس وقت نوجوان تھی تو مجے اس موسم سے بہت پیار تھا کیونکہ بالکل اسی طرح جو موسم خزاں کے میں ہوتا ہے وہ میرے احساسات کی طرح ہیں، کسی بھی لمحے مجھ میں تبدیلی کا امکان رہتے ہیں۔چ ونکہ میں نوعمر تھی اور میرے تصور میں اوبرن بالوں والی ایک خزاں والی لڑکی تھی۔ جب موسم خزاں میں ہوا چلنے لگی تو ہوا سے اس کے بال کھل گئے: جب بارش ہو رہی تھی، تو میں نے اپنی چھوٹی بچی کے بالوں کو تصور کیا، اس کے بالوں کی سنہری رنگت سیاہ اور بھیگ گئی تھی۔دن کے وقت، اس کے بالوں میں ہوا گزر رہی تھی اور شام کو وہ چھوٹی بچی بالوں کے بکھرنے سے تھک گئی اور اس نے ان کی چوٹیا بنانا شروع کردی۔ 

مجھے اس خیالی دوست (سنہرے بالوں والی اپنی چھوٹی بچی) سے پیار تھا۔ اتنے سالوں کے بعد بھی مجھے موسم خزاں سے پیار ہے۔ مجھے پتوں کی ہلچل کی آواز بہت پسند ہے جو کبھی کبھی میرے دل کی آواز کی طرح ہوتی ہے۔ مجھے اچانک سے ٹھنڈی ہونے والی ہوا بہت اچھی لگتی ہے، مجھے موسم خزاں کی بارش، ہر بارش کے بعد گلیوں میں نمی کی حوشبو، بارش کے بعد سوکھے ہوئے پتوں کی خوشبو بہت پسند ہے۔ مجھے بغیر چھتری کے موسم خزاں کی بارش میں چلنا اچھا لگتا ہے۔ 

موسم خزاں کے غروب آفتاب کے دوران، میں کبھی کبھی اپنے کمرے کی کھڑکی پر گرم چائے کا کپ لے کر بیٹھتی اور شیشے کے پیچھے سے میں اپنے کمرے کے باہر کی بارش کی دنیا کو دیکھتی، اور کبھی کبھی میں اپنی پسندیدہ کتاب یعنی وہ کتاب پڑھتی جس کو میں ہر سال موسم خزاں میں پڑھا کرتی تھی۔

جیسے ہی موسم خزاں شروع ہوتا ہے، غروب آفتاب کے دوران میری سیر شروع ہو جاتی ہے اور جب موسم خزاں کا سرد موسم مجھے حیرت میں ڈالتا ہے تو میں گلی کے پرانے کیفے میں چلی جاتی ہوں، لکڑی کے بنچوں والے کیفے میں۔ایک کیفے جس میں اب بھی زندگی کا جوہر موجود ہے، ایک کیفے جو جدید نہیں بننا چاہتا۔ میں چائے کا ایک گرم کپ پیتی ہوں اور  اپنا موبائل آن کرکے سوشل میڈیا کو اسکرول(نیچے) کرتی ہوں اور ان تمام لوگوں کو دیکھتی ہوں جو موسم خزاں کی آہیں بھر رہے تھے، کیونکہ موسم خزاں میں ان کے سوشل میڈیا پروفائلز خوبصورت تصاویروں سے بھر جاتے ہیں، اور گلیاں مالٹوں میں ڈھک جاتی ہیں۔ آدھے شاٹ والی تصویریں، آدھے خزاں کے پتوں سے ڈھکی ہوئی، یا کسی نامعلوم لڑکی کے اسکرٹ پر مالٹوں کے پتوں کے ساتھ تصویریں۔

اس سرزمین پر جہاں میں پہلے رہتی تھی، وہاں سال کا آغاز، موسم بہار سے ہوتا تھا، اس سرزمین میں جہاں میں اب رہتی ہوں، یہاں سال کا آغاز سردیوں کے موسم سے ہوتا ہے، لیکن میرے دل اور دماغ کی سرزمین میں، ہر سال کا آغاز موسم خزاں سے ہوتا ہے۔در حقیقت آپ سب کے لیے اس کی خوبصورتی کو دیکھنے اور اس کا ادراک کرنے کے لیے، موسم خزاں کے ختم ہونے کے کچھ دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔

آپ اپنے تصور میں اس موسم کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں؟

** یہ مضمون مہدیہ حسینی نے موسم خزاں میں لکھا تھا، آپ نے اسے تھوڑا تاخیر سے پڑھا۔

Photo by Elias Sharifi

Add comment