آج کل اسکول کا مطلب کیا ہ?

 یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ قلم کے ساتھ ظلم سے لڑتے ہیں

جدید اسکولوں کے قائم ہونے سے پہلے، افغانستان میں تعلیم مساجدوں میں ہوتی تھی، اور اساتذہ مذہبی افراد تھے جو بچوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا کے سکھاتے تھے۔ یہاں تک کہ آج کل، یہ اسکول بچوں کو پڑھانے کے روایتی مقامات سمجھے جاتے ہیں۔ امیر حبیب اللہ خان کے دور میں پہلا جدید اسکول وجود میں آیا اور اسے حبیبی کا نام دیا گیا۔ حبیبی افغانستان کا صرف اکیلا جدید اسکول تھا۔ 

افغانستان میں دو سرکاری زبانیں ہیں: پشتو اور داری۔ تاہم، تمام اسکولوں کی کتابیں، پشتو میں شائع کی جاتی تھیں اور اس سے فارسی بولنے والے علاقوں میں کچھ مسائل پیدا ہوتے تھے، لہذا اسکول کی سرکاری زبان فارسی میں بدل گئی، پشتو کو دوسری زبان کے طور پر بدل دیا گیا۔ اسکول مارچ کے مہینے میں شورع ہوتے ہیں اور ستمبر میں ختم ہوتے ہیں۔ 

افغان کے اسکولوں میں، طالب علموں کو یونیفارم پہننا پڑتا ہے! آج کل لڑکیوں کا یونیفارم سیاہ سے نیلے یا بھورے رنگ میں بدل گیا ہے۔ ابتدائی اسکول کا یونیفارم نیلا اور ہائی سکول کا بھورے رنگ کا ہے۔ افغانستان میں اسکول اعلی درجے کے نہیں ہیں اور مناسب طریقے سے آراستہ نہیں ہیں۔ زیادہ تر میں ایئر کنڈیشنز یا ہیٹنگ سسٹم بھی نہیں ہے۔ کچھ علاقوں میں، طالب علموں کو خیموں میں پڑھنا پڑتا ہے، جبکہ دوسرے باہر ایک کھلی جگہ میں میں یٹھ کر مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچے بارش اور سورج سے محفوظ نہیں ہیں۔ یہ صورت حال کابل میں بھی ہو سکتی ہے، جو کہ ایک دارالحکومت ہے۔  

ایران میں سکول: 

“دارال فنن” ایران میں پہلی یونیورسٹی تھی، جو مرزا تقی خان عامر کبیر کی طرف سے قائم گئی تھی۔ ایرانی اسکول کا سال ستمبر سے مارچ تک چلتا ہے اور اسکول صبح 7 بجے شروع ہوتا ہے اور دوپہر کو چھٹی ہو جاتی ہے۔ ایران میں تعلیم کے ہر سطح پر لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے علیحدہ اسکول بنے ہوے ہیں! اسکولوں کو بھی دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: سرکاری اور نجی۔ درمیانے اور کم طبقے کے طلباء سرکاری اسکولوں میں جاتے ہیں، جہاں ایرانی شہریوں کے لئے تعلیم مفت ہے، جبکہ افغان طالب علموں کو کافی فیس ادا کرنا پڑتی ہے یا نجی اسکولوں میں جانا پڑتا ہے۔ بہترین طالب علم نجی اسکولوں میں جاتے ہیں، جہاں جدید تعلیم کے طریقوں اور ٹیکنالوجی کا استعمال ہوتا ہے۔  جہاں طلباء کے پاس کتابوں اور پنسلوں کے بجائے ایک ٹیبلٹ ہوتے ہیں، اور طلباء کے لیے خاص (خاندانی، مالی، وغیرہ) کے مسائل کے لیے ہمیشہ ماہر نفسیات موجود ہوتے ہے۔ چھ ماہ کے بعد اسکولوں میں مڈٹرم امتحان کا آغاز ہوتا ہے اور تین مہینوں کے بعد سال کے آخر سے پہلے امتحان ہوتے ہیں۔ 

ایرانی اسکولوں میں طلباء کو ہر تعلیی سطح پر یونیفارم پہنننا ظروری ہے۔ 

ابتدائی سے ہائی اسکول تک بچوں کو ايک قسم کا یونیفارم پہنایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان کسی بھی قسم کا اقتصادی یا طبقاتی فرق کو چھپانے کے لئے۔ طلباء کو ان کے اسکول یونیفارم کے علاوہ کسی بھی قسم کے کپڑے پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ اسکولوں میں موبائل فون کا استعمال بھی منع ہے۔ ایران کے ہر علاقے میں بہت سے اسکول ہیں، تو لہذا طالب علموں کو طویل سفر کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ خدمات صرف ایرانی طالب علموں کے لئے ہیں جبکہ افغان طالب علموں کی طرف لوگوں کا سلوک غیر مناسب اور نسل پرست طریقے سے ہے۔ ایک اسکول میں، ایک پروفیسر نے ہوم ورک نہ کرنے پر ایک طالب علم کو سزا دی اور پروفیسر نے اس کو ٹوائلٹ کے کٹورا میں ہاتھ ڈالنے کے لۓ مجبور کیا!

اور اب یہاں یونان کے  اسکول میں میرا تجربہ:

پہلی بار ہم اسکول گئے، جب ہم 5:30 بجے اسکول کے لیے نکلے کیونکہ سفربہت طویل تھا، لیکن کیونکہ ہمیں پڑھائ سے محبت تھی، ہمیں بلکل بھی برا نہیں لگا۔ راستے میں، ہم سوچ رہے تھے کہ یورپ کے سکول کی طرح کے ہونگے، ان اسکولوں سے کتنے مختلف ہونگے جن اسکولوں کے بارے میں  ہم جانتے ہیں اور سب ہمارے ساتھ کس طرح سلوک کریں گے۔ ہمارے اسکول میں درختوں سے گھیرا ہوا ایک بڑا سا گراؤنڈ ہے۔ بچے مختلف قسم کے لباس پہنتے ہیں، یہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اسکولوں کے لئے کوئی مخصوص یونیفارم نہیں ہے۔ وہاں مختلف قوموں، مذہبوں، اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم ہیں اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور جو مجھے پرسکونی کا احساس دلاتا ہے۔ ستمبر میں اسکول کھولتے ہیں اور جولائی میں بند ہوتے ہیں۔ لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ اسکول جاتے ہیں اور ہر کلاس میں 22-25 طالب علم ہیں۔ ہمارے اسکول میں مرد اور عورت استاد ہیں اور کمپیوٹر کے سبق بھی۔ یہاں طالب علم محفوظ ملک میں ہیں اور ان کو تنگ کرنے والے کوئی مسائل نہیں ہیں، افغانستان کے برعکس، جہاں طالب علموں کو کوئی سیکورٹی نہیں ہے اور ناہی ان کی تعلیم جاری رکھنے کے لئے کوئی حمایت ہے۔

مجھے امید ہے کہ دنیا بھر کے طالب علم اس حالات ميں سیکھ سکتے ہیں جن سے ان کو آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔

Photo by Migratory Birds Team
Photo by Migratory Birds Team

Add comment