میں نے 26 جولائی 2017 کو مرکزی ایتھنز کے علاکے مونستراکی میں مسٹر نصرالدین نثامی سے ملاقات کی۔ وہ سلیمان کے پبلک رلیشن مینیجر ہیں، ایک مساوی پروڈیکشن تنظیم کے۔ میں نے انکی زندگی اور ماضی کے بارے میں ان کا انٹرویو کیا۔
کیا آپ ہمارے لئے مختصر طور پر اپنی زندگی بیان کر سکتے ہیں؟
میں ناصیرالدین نجامی ہوں میرا تعلق افغانستان کے ننگرہار صوبے سے ہے۔ میں نے افغانستان میں ہائی اسکول مکمل کیا اور میں نے کمپیوٹر ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کا کام کیا ہے۔ میں نے ایک درزی کے طور پر بھی کام کیا ہے کیونکہ جب میں چوٹا تھا تو میں اپنی تعلیم کے اخراجات حود ادا کرنا چاہتا تھا۔
آپ نے یورپ کا سفر کیوں کرنا چاہا؟
جیسا کہ دنیا میں زیادہ تر لوگ واقف ہیں کہ، افغانستان میں بہت سے سیکیورٹی مسائل ہیں۔ جب میں نے چھوڑ، تب سیاسی جماعتوں کے درمیان بہت ساری مشکلات تھیں اس کے علاوہ مرد اور عورت دونوں کے لئے بنیادی آزادی کی کمی بھی تھی۔ میرے سفر کی بنیادی وجہ مالی حالات نہیں تھے۔ میں افغانستان میں زندگی سے تنگ آگیا تھا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کسی کو اچھی طرح سے رہنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ میں کوچھ عرصے کے لئے پاکستان میں رہا، جو میرا تارکین وطن ہونے کا پہلا تجربہ تھا۔
ہمیں یورپ کے سفر کے آغاز اور اپنی مشکلات کے بارے میں بتائیں۔
2009 میں، افغانستان میں زندگی کے مشکل حالات نے مجھے اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کے فیصلے پر مجبور کیا۔ میرا ایک کزن نگلینڈ میں رہتا تھا میں نے اس سے مجھے وہاں جانے میں مدد کرنے کے لئے پوچھا۔ میرے سفر کا پہلا سٹاپ پاکستان تھا۔ پھر میں غیر قانونی طور پر ایران میں داخل ہوا، پھر ترکی اور اس کے بعد یونان جزیرے سموس۔ سمندر کا سفر خوفناک تھا۔ افغانستان سے یونان آنے کے لۓ مجھے دو مہینے لگے، مشکلات اور خطرات کے ساتھ۔ میں نے سموس پناہ گزین استقبالیہ مرکز میں دو ہفتے گزارے۔ یونانی پولیس نے میری انگلیوں کے نشانوں کو لینے کے بعد مجھے ایک کاغذ دیا، جس پے لکھا تھا کہ میرے پاس یونان چھوڑنے کے لیے ایک ماہ ہے۔ میں ساموس میں تھوڑی دیر رہا اور پھر میں ایتھنز میں آگیا، جو دارالحکومت ہے۔ س وقت تارکین وطن کی مدد کرنے کے لیے اتنی تنظیمیں نہیں تھیں۔ میں نے ایتھنز میں گیسٹ ہاوس میں ایک ہفتہ گزرا اور اس کے بعد اٹلی تک پار کرنے کی امید میں پاترا گیا۔ وہاں حالات اور بھی سخت تھے۔ پورے مہینے کے لئے میرے پاس سونے کی جگہ نہیں تھی اور اس وجہ سے سڑک کا کنارا میرا بستر بن گیا تھا۔ پھر آخر کار میں اٹلی پہنچ گیا، 36 گھنٹوں تک فیری کے اندر لاری میں چھپنے کے بعد۔ پھر میں نے ایک ٹرین ٹکٹ خریدا اور فرانس پہنچا۔ انگلینڈ جانے سے پہلے میں نے دو ہفتے کالیس کے ایک جنگل میں گزارے۔ میں نے پناہ طلب کی لیکن آٹھ ماہ بعد، جون 2008 میں میری درخواست یونان میں دئے گئی انگلیوں کے نشانوں کی وجہ سے مسترد کردی گئی تھی۔ انہوں نے مجھے یونان میں واپس بھیج دیا۔ پھر ایک دوست نے میری کام ڈھونڈنے میں مدد کی اور میں زبان سیکھنے لگا۔ تاہم، ایک سال بعد، میں اپنی زندگی کے حالات سے ناخوش تھا، اور پھر میرے دوست اور میں نے یونان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس بار ہم نے بلقن کے راستے سفر کیا، اور سربیا میں حملوں اور چوری جیسے مختلف مسائل کا سامنا کرنے کے بعد، پیسوں کی چوری اور پولیس کی گرفتاری کے بعد، آخر میں ہم آسٹریا پہنچ گیا۔ پانچ ماہ بعد، مجے ایک ہی مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا جس کا میں نے انگلینڈ میں سامنا کیا تھا اور انہوں نے مجھے یونان میں واپس بھیج دیا۔ اس دفہ میں نے یونان میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ایک جزیرے میں 20 ماہ تک کام کیا۔ میں نے اپنے یونانی زبان کو بہتر کیا اور اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لئے ایتھنز میں جانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے مختلف تنظیموں کے لئے ترجمان کے طور پر کام کیا جیسا کہ ای او ایم اور جی سی آر جیسی۔ میں نے یونانی تاریخ، تہذیب اور زبان کا مطالعہ کیا۔ 2015 میں نے تارکین وطنوں کی مدد کے لئے “ریفیوجی ویل کم” ویب سائٹ قائم کی۔ اس کے ذریعہ میں نے جناب فینس سے ملاقات کی جو آن لائن نیوز ایجنسی سلیمان کے ڈائریکٹر ہیں، اور ان کا شکرگزار ہوں کہ اس میگزین میں مجھے ملازمت ملی۔ میگزین “سلیمان” میں، ہم مختلف ممالک سے مختلف مضامین لکھتے ہیں۔ ہمارے رضا کار کارکن افغانستان، یونان، پاکستان، چین وغیرہ جیسے ممالک سے آتے ہیں۔
آخر میں، اس طویل عرصے اور تھکے ہوئے سفر پر دردناک مشکلات کے بعد، آپ کی زندگی اب کیسی ہے؟
ٹھیک ہے، میں اب زندگی سے خوش ہوں۔ میں نے اپنے بنیادی مقصد کو حاصل نہیں کیا ہے، لیکن میں خوش ہوں اور میں ہر دن اس کے قریب ہو رہا ہوں۔
آپ کے پاس آج کے مہاجرین کے لئے کوئی مشورہ ہے؟
مشورہ جو میں دینا چاہتا ہوں کہ کبھی ہار نہیں ماننا اور مثبت سوچ کے ساتھ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر روز کوشش کرنا۔ انہیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہئے تاکہ وہ انہیں دوبارہ نہ کریں۔
ہم اپنے پیارے دوست ناصیرالدین نجامی کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور کامیابی ان کے قدمے۔
Add comment