Photo by Migratory Birds Team

فلسطین میں واپسی!

میرا نام محمد سلیم ہے۔ میں فلسطین سے ایک شامی ہوں، داماسقس میں یرموک کیمپ سے جہاں میں بچوں کی سرگرمیوں اور ابتدائی رقص کے گروپ کے انچارج تھا۔ میں فلسطینی مرکز برائے ثقافت اور آرٹس کا رکن تھا اور فلسطین ایڈ فاؤنڈیشن میں رضاکارا تھا۔ میں “یاسمین الشام” رقص تھیٹر میں کام کرتا تھا۔ جنگیں شروع ہونے سے پہلے اور اِنسان نما جانورں کے کیم میں داخل ہونے، ہر چیز کو تباہ اور قتل کرنے سے پہلے ہماری زندگی بہت خوشگوار تھی۔ ہم نے دماسکس کی سڑکوں پر دن گزارے، پھر لبنان میں پہنچے جہاں ہر چیز بہت زیادہ مشکل تھی۔ ہم نے آخر میں شام واپس آنے کا فیصلہ کیا، جو سالوں سے جنگ کی گرفت میں تھا۔ اگر آپ وہاں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کے پاس دو انتخاب ہیں: مارو یا مرو۔

اور اس طرح ہم نے اپنے بیگ پیک کرکے یورپ میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ سفر کا پہلا حصہ ہمیں داماسکس سے ترکی لے گیا۔ پھر ہم بہت مشکل سے یونان پہنچے اور یہاں سے میں اپنی کہانی کا دوبارہ جائزہ لے رہا ہوں اور ایک پرامن زندگی کو دوبارہ شروع کرنے کی امید کر رہا ہوں۔ 

میں فلسطین کو کبھی نہیں بھولوں گا، یا اس حقیقت کو کہ مجھے واپس جانے کا حق ہے۔ ایک نوجوان فلسطینی پناہ گزین ہونے کی حیثیت سے یہی خواب دیکھتا ہوں۔ ہماری زمین پر 70 سال پہلے حملہ کردیا اور ہمیں اسے چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ میں اپنے وطن کا پابند ہوں اور میرا یقین ہے کہ ایک دن مجھے واپس جانے کا حق ضرور ملے گا۔ اسی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مجھے اپنے ملک کے نوجوانوں اور بوڑهوں کو اپنے ملک کے ورثہ کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ کرنا پڑے گا: میں نے  رضاکارانہ طور پر فلسطینی بچوں کے تعلیمی مرکز کام کیا۔

Photos by Migratory Birds Team

الظہرا، داماسکس 2013!

یہی ہے وہ جہاں سے ہمارے فلسطینی ورثہ کو بحال کرنے کا خواب شروع ہوا۔ اے میرے دل، ہم تمہیں کبھی نہیں بھولیں گے تم ہمیشہ قبضہ کرنے والوں کے حلق میں ایک چاقو کی طرح رہو گے۔ اور اسی طرح، ہم نے اپنی حتمی واپسی کے لئے زندہ رہنا سیکھا اور لڑائی جاری رکھی۔

اسی وجہ سے 2013 میں فلسطینی ثقافتی مرکز قائم کیا گیا تھا، تاکہ ہم اپنے بچوں کو اپنے وطن کی وراثت کے بارے میں ممکنہ طور پر سکھا سکیں۔ مثال کے طور پر، ڈاکبی رقص، جو کہ بہت سے ممالک میں معروف ہے۔ سب لوگ مل کر ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑتے ہیں، اور لوگوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ رقاصہ اپنے پیروں کو زمین پر مارتے ہیں، طاقت کے نشان کا اضہار کرتے ہیں۔ یہ سب، موسیقی اور گانے کے میل کے ساتھ، فلسطین کے لوگوں طرف سے فلسطین کی جانب احترام اور اخلاص کا مظاہرہ کرتا ہے۔ 

زیادہ سے زیادہ بچوں کی شمولیت کے اختیار کے بعد رقص کا گروہ “ڈابکا” قائم کیا گیا، جس کا نام فلسطین کے قومی رقص کے بعد رکھا گیا۔ ہم جلد ہی شام میں کئی مراکز اور یونیورسٹیوں میں پرفارمنس دینے جا رہے تھے، ساتھ ساتھ تعلیمی مراکز میں، عظیم کامیابی کے ساتھ۔ 

ہم نے شہر کے مرکز میں ایک پرانی عمارت میں بچوں کے چھوٹے گروپ کے ساتھ شروع کیا۔ مشکلات کے باوجود، ہم نے اسے پینٹ کیا، سب نے مل کر اسے سجایا اور اسے ٹھیک کیا۔ اصرار اور بچوں کے صبر، کے ساتھ ساتھ فلسطینی ورثہ کے بارے میں جاننے کی خواہش نے مختلف مسائل پر قابو پانے میں ہماری مدد کی۔ 

یرموک کیمپ میں ایک یوتھ سینٹر بھی تھا۔ میں نے وہاں فلسطین کے ایک گروہ کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کیا جس کا مقصد فلسطینیوں کی “ثقافتی طرف” کا مظاہرہ کرنا تھا۔ یہ سرگرمیوں میں حصہ لینے میں کیمپ کا پہلا آزاد مرکز تھا جس کا عنوان “ورثے کبھی نہیں مرتے”۔ ہم نے مل کر UNRWA ساتھ کام کیا۔ 

گروپ کی کامیابی نے مجھے خوشی سے بھر دیا کیونکہ میں نے اپنی ملک کی ثقافت کو محفوض کرنے میں حصہ لیا۔ 

تاہم، سمندر کا ایک قطرہ اس کے مقابلے میں موازنہ کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو روایات کو برقرار رکھنے مدد کیسے ہونی چاہیے جو روایات کو مرنے کے خطرے سے بچاسکے کیونکہ ہم اپنے آپ سے، اپنے وطن سے، فلسطینی زمین سے، دور رہتے ہیں جوکہ ایک شہیدوں کی زمین ہے۔

Add comment