“پیچھے افغانستان میں، میں ایک طالب علم تھی، لیکن جب جنگ شروع ہوئی، تو ہم اسکول نہیں جا سکتے تھے اور لڑکیوں کو پورے دن گھر میں ہی رہنا پڑاتا تھا۔ پھر ہم بھاگ کر ایران چلے گئے لیکن وہاں ہمیں نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ افغان مہاجرین کا خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ ہمیں ملک میں سرکاری رجسٹریشن حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی اور ہم ڈیپوٹ ہونے کے ڈر میں رہ رہے تھے، لہذا میرے خاندان نے اپنا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور جرمنی تک پہنچنے کی کوشش کی۔ ہم نے سنا تھا کہ جرمنی میں پناہ گزینوں کے لیے آزادی ہے۔ وہ مطالعہ اور کام کر سکتے اور ان مسائل کا سامنا نہیں کرتے جو ہم نے ایران میں پہلی بار پہنچنے پر کیے تھے۔ تاہم، سرحدوں کی بندشیں کی وجہ سے اب ہم یونان میں پھنس گئے ہیں۔ ہم ایلینوکو کیمپ میں رہتے ہیں، پر ہماری زندگی آسان نہیں ہے۔ یہاں پر امن نہیں ہے، لوگ لڑتے ہیں اور ہمارے مستقبل کے بارے میں بہت مایوسی ہے۔ اگر میں خوش قسمت ہوں تو، میں بالآخر جرمنی تک پہنچ ہی جاؤں گی”۔
جرمنی تک پہنچنے کے لئے لییلا کے خاندان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی لہذا انہوں نے اپنی چھوٹی بہن کو جرمنی بھیجنے کا فیصلہ کیا، جو 16 سالہ ہے، اور پھر ادھر ملاپ کے لئے درخواست دے گی۔ نو جوان لڑکی ایک کیمپ میں رہتی ہے اور جیساکہ لییلا فخر سے بیان کرتی ہے “بہت سی کورسوں میں حصہ لے رہی ہے اور بہت کچھ سیکھ رہی ہے”۔ اس دوران، اس کی بڑی بہن ایران سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوے پکڑی گئی اور اب وہ وہاں پھنس گئی ہے۔
ایتھنز میں میری زندگی
میں ایک کیمپ میں رہتی ہوں میری سمجھ کے مطابق، میرے گھر بننے سے پہلے یہ کسی قسم کا کھیل سینٹر تھا۔ میرے حیال سے یہ بیس بال یا ہاکی کا میدان تھا۔ اب یہ قطاروں میں خیموں سے بھرا ہوا ہے۔
ان حالات رہنا مشکل ہے۔ میں خیمے میں اپنے خاندان کے ساتھ سوتی ہوں۔ ایک خیمے کا پانچ افراد کے ساتھ اشتراک کرنا مشکل ہے۔ آپ کبھی اکیلے نہیں ہیں اور جگہ بھی زیادہ نہیں ہے۔
تاہم، میں اس سے برا نہیں مناتی۔ میرے لئے یہ بہت برا نہیں ہے۔ یہ میرے لئے اتنا برا نہیں ہے۔ میں بالغ ہوں جو سمجھ سکتی ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ زیادہ تر میں چھوٹے بچوں کے بارے میں فکر مند ہوں۔ ان کے پاس کیھلنے کے لیے کھلونے یا پلے گراؤنڈ نہیں ہیں تو وہ خالی کین اور پتھروں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ بعض اوقات جب گرم بہت ہوتی ہے تو، آپ گرمی کی وجہ سے خیمے کے اندر بیٹھ نہیں سکتے ہیں، لہذا بچے سمندر پر چلے جاتے ہیں اور وہاں کھیلتے ہیں۔
سڑک کی دوسری طرف، ایک ساحل سمندر ہے اور وہاں بچے اپنے آپ کو تھوڑا سا تازہ کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کیمپ میں واپس آتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔
میرے لئے، کیمپ سے باہر لمبی سیر میرا دن اچھا بنا دیتی ہے۔ افغانستان یا ایران میں یہ کبھی نہ کر سکتی تھی۔ مجھے ہمیشہ ایک آدمی کو اپنے ساتھ لے کے چلنا پڑتا تھا میں وہاں نہیں جا سکتی تھی جہاں میں جانا چاہتی تھی۔ یونان میں، میں اس آزادی سے لطف اندوز ہوئی۔ شروع شروع میں، میں نے بہت آرام دہ محسوس نہیں کیا۔ مجھے لگتا تھا کہ لوگ مجھے گھور رہے ہیں۔ کہ میں ایک بینچ پر بیٹھوں اور میرے ساتھ والا شخص اٹھ کر چلا جاۓ گا۔ لیکن جیسے ہی دن گزرتے گیے، چیزوں میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔ سب کے بعد، مجھے محسوس ہوا شاید میں ہی تھی جو آرام دہ محسوس نہیں کر رہی تھی ناکہ وہ یونانی جو مجھے اپنی سیر کے راستوں پر ملتے۔ میں سمندر اور شہر کے مرکز میں طویل وقت تک چلتی ہوں۔ اور میں اس حقیقت سے محبت کرتی ہوں کہ میں ہر جگہ پھولوں کو تلاش کر سکتی ہوں۔
دن کا میرا پسندیدہ وقت وہ ہے جب سورج نیچے آتا ہے۔ آسمان کا رنگ مجھے تھوڑا سا نیلا رنگ محسوس ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے پرسکون بھی محسوس ہوتا ہے۔ ہر شام مجھے یہ احساس ملتا ہے۔ یہ ایک گہری اداسی کی طرح ہے۔
لیکن پھر میں اپنی لمبی سیر پر جاتی ہوں اور اپنے ارد گرد کی خوبصورت زندگی دیکھتی ہوں اور پھر میں بہتر محسوس کرتی ہوں۔ اس جوڑے کی زندگی کی طرح جس سے میری ایکروپولیس کے قریب ایک پہاڑی پر ملاقات ہوئی۔ وہ محفوظ اور پیار سے بھرے ہیں۔ میں خوائش کرتی ہوں کہ ایک ہم سب ان کی طرح رہیں، محفوظ اور پیار سے بھرے ہوئے۔
یہ کہانی”اس کی آنکھوں کے ذریعہ” فوٹو گرافی پروجیکٹ کا حصہ ہے جو نافذ ہوا کیر انٹرنیشنل میں میلیسا نیٹ ورک کے ساتھ تعاون، جس کا مقصد آپ کو یونان میں پناہ گزین خواتین اور لڑکیوں کی آنکھوں کے ذریعہ شہری زندگی کو دیکھنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
Photography Project “Through Her Eyes”
Add comment