کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ہمارے درد اور افسوس کا کوئی آخر نہیں ہے. میں اچھی طرح سانس نہیں لے سکتی اور میں اپنے دل پر بہت بوج محسوس کرتی ہوں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ میں کہاں سے شورع کروں اور یہاں شیشتو کیمپ میں ہماری روز مرہ زندگی کی وضاحت کیسے کروں۔ کبھی کبھی تو دن بہت سست ہو جاتا ہے اور لامتناہی لگتا ہے۔
یہاں ہمارا پہلا مسئلہ کھانے کا ہے. خوراک صہت مند اور ٹیسٹ شدہ نہیں ہے۔ کھانے کی کوئی اقسام نہیں ہیں اور سب لوگ غذائیت اور کمزور لگتے ہیں. ہم نے چند بار احتجاج بھی کیا اور ہر بار وہ ہمیں کھانے میں کچھ تبدیلی لانے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ ہم پناہ گزین ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہم انسان ہیں۔ ہماری زندگیاں بہت اچھی طرح سے تھی لیکن جنگ، خون خرابے اور تشدد نے ہمیں اپنے گھروں کو چھوڑنے کے لئے مجبور کیا۔ ہم تبعیض اور ناامنی سے بچ کے نکلے اور ہم اب خیموں میں رہتے ہیں جسے آج کل ہم گھر کہتے ہیں۔ ہم اپنے نئے گھروں میں امن اور مخفوظ محسوس نہیں کرتے۔ موسم سرما میں بہت سردی اور مرسم گرما میں جلتی ہوی گرمی ہوتی ہے۔ ہم نے موسم گرما بہت مشکل سے گزارا ہے۔ ہم کیمپ کے ارد گرد کے درختوں کے نیچے بھاگتے اور پناہ گاہ لے جاتے تھے۔ یہ بلکل بھی آرام دہ اور پرسکون نہیں تھا۔ یہاں بہت دول تھی اور خطرناک مچھر ہمیں، دن اور رات کو کاٹتے رہے تھے۔
میں نہیں جانتی کہ اگر آپ کبھی کسی خیمہ میں رہے، +42 ڈگری کے تخت کے نیچے یا نہیں، لیکن اگر آپ ہمیں بہتر سمجھنا چاہتے ہیں تو، آپ کو اسے ایک بار کوشش کرنا چاہئے۔
چوہوں کے بارے میں کیا بتاؤں۔ چوہے ہمیں ہر دن پریشان اور مایوس کرتے رہے۔ ہمیں انکا ہر وقت پیچھا کرنا پڑتا۔ ان کی وجہ سے ہم اپنے خیمہ کے اندر کچھ بھی ذخیرہ نہیں کر سکتے۔
جب موسم سرما قریب آتا تو، ہم ڈرتے ہیں۔ ہم اس دن برسات سے ڈرتے ہیں۔ ہم اس سے ڈرتے ہیں جس سے پہلے ہم لطف اندوز ہوتے تھے. جیساکہ بارش، ہوا، اور تنڈربولٹ طرح۔ ہم بارش سے ڈرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں .جب بارش ہوی، تو پانی ہمارے خیمہ کے اندر آنا شروع ہو جائے گا، ہماری ساری چیزیں گیلی ہو جائیں گی اور ہمیں گیلی زمین پر سونا پڑے گا۔ اگلے دن سب کی ٹانگوں، کمر اور جسم میں درد محسوس ہوگا اور کوئی بھی دوا دستیاب نہیں ہے ان دردوں کے لئے۔ جب بھی کسی نے درد کی شکایت کی، تو ڈاکٹر نے ہر درد کے لئے ایک ہی مشورہ دیا، “پانی زیادہ پیا کرو”۔
اگر کوئی بہت بیمار ہے اور اسے ہسپتال لے جانے کی ضرورت ہے تو، اسے کچھ گھنٹے تک درد کو برداشت کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ ہسپتال یہاں سے کافی زیادہ دور ہے اور ایمبولینس ہر وقت مصروف رہتی ہیں۔
ہمارے پاس ادہر کوئی تفریح کی سہولت نہیں ہے۔ نہ کوئی ٹی وی، نہ ریڈیو اور ناہی پڑھنے کے لئے کوئی کتاب۔ کیمپ میں وائی فائی انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے لیکن آپ کو اسے استعمال کرنے کے لئے کمپ کے درمیان میں ایک مخصوص جگہ پر ہونا ضروری ہے۔ اور آپ کو وائی فائی کا استعمال کرنے کے لئے ایک کھلی جگہ پر رہنا پڑتا ہے، چاہے سردی ہو یا گرمی ہو یا بارش ہو۔
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں بہت جلدی بستر پر جانا پڑتا ہے اور جب رات ہو جاتی ہے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے سواے اپنی تمام مصیبتوں کے بارے میں سوچنے کے علاوہ۔ جب رات کو بستر میں جانے کے بعد، بہت سے سوال میرے دماغ میں آتے ہیں۔ کب ہم اس نامعلوم اندھیرے سے آزاد ہوںگے؟ ہمارا مستقبل کیسا ہوگا؟ کب ہم ایک عام زندگی کی طرف واپس جائیں گے؟ اور بہت سے دوسرے سوالات جو بے معنی لگتے ہیں.
ہمارا ایک اور اہم مسئلہ ہے جو مواصلات کا ہے۔ پناہ گزینوں میں سے کوئی بھی انگریزی یا یونانی میں بات نہیں کرتا۔ اور ہمارے یہاں مستقل زبان کا کوی کورس نہیں ہے۔ اگر ہم نے گزشتہ 9 مہینوں میں مسلسل زبان کا کورس کیا ہوتا، تو ہر کوئی اب تک انگريزی یا یونانی میں بات کر سکتا ہوتا۔
میں کیمپ میں بچوں کے لئے بہت افسوس زدہ ہوں۔ ان میں سے اکثر اداس، پریشان اور بیمار لگتے ہیں، وہ ایک طویل عرصے سے حقیقی گھر اور اسکول سے دور رہ رہے ہیں۔ وہ اپنے کل اور مستقبل کے بارے میں کوچھ نہیں جانتے۔
میں ان دنوں ایک انسان کی طرح محسوس نہیں کر رہی۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ مجھے اکیلے رہنے کی ضرورت ہے، صرف اپنے آپ کے ساتھ، اپنی زندگی ، اپنے غیر واضح مستقبل کے بارے میں سوچنے کے لیے، ہماری زندگی میں جو کچھ بھی ہوا اس کے لئے رونے کے لئے۔ لیکن میرے لئے کوئی ایسی جگہ ہی نہیں ہے۔
چلو علیحدگی اور خاندان کے ممبران سے دور رہنے کی تکلیف کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ والدین اور بچوں، بھائیوں اور بہنوں کے درمیان علیحدگی۔ میں ان بچوں کو دیکھ سکتی ہوں جو اپنی ماں کی تلاش میں ہیں، مائیں جو اپنے بچوں کے لئے رو رہی ہیں اور سب اس دن کا خواب دیکھ رہے ہیں کہ وہ دوبارہ ایک ساتھ مل جائیں۔ ہم مایوس اور اداس ہیں؛ غموں اور ناامیدی نے گھیر لیا ہے ہمیں۔ زندگی ہمارے لئے بیکار اور خالی ہے۔ دوسرے ممالک ہمیں سمجھے نہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ایک پرامن ملک ہو جہاں ہم آزادانہ طور پر جا سکتے ہوں۔ ہمیشہ کے تمام جنگوں، تبعیض اور تشدد سے دور ہوجائیں۔
کاش، ایک دن یہ خوفناک دن ختم ہو جائیں گے اور ہم یہ سمجھ لیں گے کہ ہم نے اس کے لئے اپنے گھر چھوڑ دیے ہے۔
Add comment