“ہر رات میں سوتی ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ میں مر جاؤں گی۔ کیا آپ مجھے سن سکتے ہو؟” یہ موریا، لیسسوس، یونان میں رہائش پذیر اس بچے کا حوالہ تھا جس نے “ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل” کے یونانی سیکشن کی سربراہ اور ڈائریکٹر نانتینا تسیکیری کو اس مہم کا آغاز کرنے کے لئے متاثر کیا، “کیا آپ مجھے سن سکتے ہو؟” اس ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے #dont_ leavethetidsalone۔
“ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل” یونان میں تنہا نابالغ بچوں کو قانونی خدمات اور بچوں کی حفاظت کی خدمات پیش کرتا ہے۔ اس مہم “کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں؟” کے پیچھے بچوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنے کا آئیڈیا تھا جہاں وہ اپنا پیغام بھیج سکیں، ایک پلیٹ فارم جس سے وہ اپنی آواز کو پورے یورپ میں پھیلا سکیں۔
اس مہم کا آغاز ستمبر 2019 میں ہوا، اس دوران جب موریہ کیمپ میں موریہ لوگوں کی تعداد حد سے ذیادہ ہوگئی تھا۔ موریہ کا وہ حصہ جہاں تنہا نابالغ بچوں کی میزبانی کی گئی تھی وہ نابالغ بچوں سے بھر گیا تھا اور انہیں آس پاس کے علاقوں میں پھیلنا پڑا، جسے “جنگل” کہا جاتا ہے۔ وہاں، بچے کھانے یا پانی تک رسائی کے بغیر، کیچڑ پر سو رہے تھے۔
نینٹینا سیکیری نے بتایا کہ اس مہم سے پہلے کوئی بھی بچوں کو موریا سے دوسرے ممالک یا اندرون ملک میں منتقل کرنے کے بارے میں بات نہیں کررہا تھا۔ اس مہم کے ایک حصے کے طور پر، یورپ کے آرد گرد کے لوگوں نے، بشمول یونان کے لوگوں نے، اٹھائے ہوئے بورڈوں کی تصاویر کھینچیں جس پر بچوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا “میں آپ کو سن سکتا ہوں!”۔ کچھ مہینوں کے بعد ہم اس مقام پرپہنچ چکے ہیں جہاں بہت سے بچے پہلے ہی منتقل کردیئے گئے ہیں، جبکہ مزید بہت سے بچے زیر غور کی لسٹ میں ہیں۔ اس مہم کی بدولت بچوں نے محسوس کیا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ وہ حقیقت میں آواز بلند کر سکتے ہیں اور اپنے جذبات اور اعتقادات کا اظہار کرسکتے ہیں، کہ لوگ واقعی انہیں سنتے ہیں!
یہ مہم تنہا نابالغ بچوں پر مرکوز ہے۔ لیکن موریہ کے کیمپ میں حالیہ آگ کے بعد سے، اب توجہ اس علاقے میں پھنسے ہزاروں بچوں کی طرف ہے۔ وہ تنہا بچے نہیں ہیں، لیکن وہ بہت کم عمر ہیں (5 سال سے کم عمر کے) اور مشکل حالات سے گذار رہے ہیں۔ لہذا، محترمہ تسیکیری کے مطابق، اب دباؤ ڈالنے کی اور ان کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ دیگر یوروپی ممالک میں منتقل کرنے کا مطالبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے، موریہ کے کیمپ میں آگ لگنے کے بعد، تنہا نابالغ بچوں کو اندرون ملک منتقل کردیا گیا۔
محترمہ تسکیری نے وضاحت کی کہ وہ واقعی نہیں جانتی کہ اب کیا ہوگا۔ وہ امید کرتی ہیں کہ وہ اسی طرح لڑتے رہیں اور E.U. اپنی قدر پر برکرار ہو۔ ابھی کارروائی کے لئے بہت ساری کالیں آچکی ہیں اور صورتحال کے بارے میں اتنی آگاہی ہوچکی ہے، لہذا لوگ توقع کر رہے ہیں کہ E.U زیادہ لوگوں کو دوسرے یوروپی ممالک میں منتقل کرنے کے لئے مزید فیصلے کرے گا۔
اگر آپ کو یقین ہے کہ بچے بےگناہ ہوتے ہیں، تو کہ وہ اپنے ممالک میں جاری جنگ کے لئے ذمہ دار نہیں ہیں، انہوں نے اپنا وطن چھوڑنے اور پناہگزین بننے کا انتخاب نہیں کیا، ایکشن لیں اور ان کی زندگی میں تبدیلی لائیں، وہ تبدیلی جس کے وہ مستحق ہیں! اگر آپ کو اس کے بارے میں یقینی نہیں ہیں… تو، سنیے کہ وہ ہمارے ساتھ کیا بانٹنا چاہتے ہیں۔
Add comment