حال ہی میں مجھے ایک کتاب ملی جس نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر آمادہ کیا۔ اسے “فلومینا” کا عنوان دے ک مارٹن سکسمتھ نے لکھا تھا اور اس میں ایک ایسے بچے کی سچی کہانی بتائی گئی جسے غیرقانونی طور پر گود لینے کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا۔ کتاب میں ایک ایسے مسئلے پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے جو کئی سالوں سے پوری دنیا میں برادریوں کو زیربحث رکھے ہوئے ہے۔
گود لینا یا دینا غیر قانونی اس وقت ہوتا ہے جب کوئی فرد یا تنظیم کسی بچے کو گود لے لے یا قانون کے خاطرے کی پرواہ کیے بغیر کسی بچے کو گود دینے کے لئے چھوڑ دے۔ یہ گود لینا یا دینا بچوں کے اغوا، یا انسانوں کی فروخت اور اسمگلنگ کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ غیر قانونی طریقے سے گود لینے یا دینے کی دو اقسام ہیں: ایک یہ جب گود لینے والی ایجنسیاں قانون کے مطابق مطلوبہ صحیح طریقہ کار پر عمل نہیں کرتی ہیں اور دوسرا یہ کہ بلیک مارکیٹ میں بچوں کی فروخت ہوتی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ جرم سب سے پہلے کب ظاہر ہوا لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس کی ایک لمبی تاریخ ہے اور اس کا مذہبی تعصب اور مالی فائدہ سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آج یہ بہت زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ زمین پر کچھ جگہوں پر غیر قانونی طور پر گود لینے کی درجہ بندی بہت زیادہ ہے، جوکہ جو یونان میں بھی ہے۔ جو بلکل غیر قانونی مالی فائدہ کے لئے کیا جاتا ہے، بچوں کے متعدد حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور کسی بچے کے بہترین مفاد کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر تسلیم شدہ کچھ اصولوں کو نظرانداز کرتا ہے۔ ان اصولوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے جب والدین کے لیے کوئی بھی بچہ ڈھونڈتے ہیں، بطور بچے کے لئے گھر ڈھونڈنے کے برعکس، بچے کو گود لینا ترجیح بن جاتی ہے۔
اس گھناونے عمل کے پیچھے کون سے محرکات جنم لیتے ہیں؟ جواب ایک فرسودہ ہوسکتا ہے، لیکن یہ بلکل حقیقت پسندانہ ہے: پیسہ۔ ان زیادتیوں کے ذمہ دار افراد اور ادارے اس حقیقت سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہ ہر گود لینے والے کے پیچھے پیچیدہ افسر شاہی کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ وہ مستقبل میں گود لینے والے والدین کے لیے چیزوں میں تیزی لانے کا وعدہ کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ وہ وقت کو ضیاع کرنے والے عمل سے بہ لحاظ گزر سکتے ہیں۔ دریں اثنا، یہ جاننا حیرت کی بات نہیں ہے کہ اس مسئلے میں ترقی پذیر ممالک میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ بہت سی ماؤں نے اپنے بچوں کو بیچنا شروع کر دیا ہے۔ ان خواتین کے ذاتی اکاؤنٹس دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ بچوں کی فروخت کے مرتکب افراد کی بجائے خود شکار ہوگئی ہیں۔ وہ انتہائی ایسے حالات کے بارے میں بات کرتے ہیں، جن میں تھوڑی سی رقم بھی زندگی کے لیے مددگار صابت ہوسکتی ہے، اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے لئے اس نئے وجود کو صحیح طریقے سے پالنا ناممکن ہے جسے وہ دنیا میں لاتے ہیں۔
یہ مسئلہ آج بھی اتنا وسیع ہے جتنا پہلے تھا۔ کیوں؟ کیونکہ ابھی بھی دنیا بھر کے حالات ان حرکت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ جنگ سے غربت تک، جب آبادی کمزور اور غیر محفوظ ہوتی ہے، تو اسمگلر اپنے منافع میں اضافے کے مواقع تلاش کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر زبردستی نقل مکانی کے ادوار، جیسا کہ آج کل ہورہا ہے، انسانوں کی فروخت میں تیزی سے اضافہ، کیونکہ بے گھر افراد اور خاص طور پر چھوٹے بچے، ان کے لیے “آسان اہداف” بن جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے، غیر قانونی تنظیموں کو روکنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے تحفظ اور آسانی سے گود لینے کے عمل کے لئے مزید مخصوص قانون سازی کرنے کی اہم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بہر حال، یہ ایک ایسی چیز ہے جو بدستور تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، اور عین اس کی وجہ سے، ہمیں معاشرے میں اس مسئلے پر آگاہی پیدا کرنے کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں یقینا اس مسئلے کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے، کیونکہ یہ ایک انسانی معاشرے کی تشکیل کے خلاف ہے۔ اس کے خلاف لڑائی روکنے اور بہتر کل کی امید کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے، جس کی ابتدا اسی لمحے سے ہوگی جب ہم اپنے آپ میں اور سب میں اس دنیا کو بدلنے کی طاقت کا احساس کریں گے، نہ صرف اپنے لئے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی۔
*“یہ مضمون “پناہ گزین پرندے” اخبار کے شمارہ نمبر 19 میں شائع ہوا ہے، جسے 21 نومبر 2020 کو “افیمریدا تن سنتاکتن” اخبار (ایڈیٹرز کا اخبار) کے ساتھ حصے کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔
Add comment