افغانستان میں ہجرت اور مشکلات  

افغانستان میں حالات روز بروز خراب ہوتے جارہے ہیں، جس سے ہزاروں بچوں، نوجوانوں اور ان کے اہل خانہ کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ان میں سے بہت سے ایسے، جنہوں نے اپنے گھر کھو دیئے، انہوں نے پڑوسی ملک ایران میں جا کر میں پناہ مانگی، جہاں ایک ہی زبان بولی جاتی ہے۔ گو که، وہاں ان کا خیرمقدم نہیں کیا جاتا ہے، کوئی بھی ان پر توجہ نہیں دیتا ہے، اور اسی وجہ سے انہیں بڑا قدام اٹھانا پڑتا ہے، خوفناک اور خطرے سے بھرے سفر کی کوشش کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو ان کے بچوں اور کنبوں کی حفاظت کا خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ، جب وہ ترکی پہنچتے ہیں تو انھیں بند سرحدیں ملتی ہیں۔ اور پھر ان کی امید ختم ہو جاتی ہے۔ 

ترکی میں، بہت سے کنبے ہیں جن میں نوزائیدہ بچے بھی شامل ہیں، جو کچے فرشوں پر سوتے ہیں، اور ان میں سے بہت سے خاندانوں کو غذا اور پانی کی کمی سامنا ہے۔ ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق وہ امید کر رہے ہیں کہ بین الاقوامی تنظیمیں اور یوروپی یونین انھیں بچائیں گے، لیکن ترک حکومت ان کی حالت زار پر آنکھیں بند کر رہی ہيں۔ بہت سے معاملات میں، حکام انہیں اس منطق کے ساتھ واپس بھیج دیتے ہیں کہ شائد اس سے دوسروں کو ہجرت کرنے کی کوشش روکا جاسکتا ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ، اگر یہ لوگ اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتے، تو کیا واقعی وہ اپنی جانوں کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی جانوں کو اس طرح خطرہ میں ڈالتے؟ ان کا یہ سب کرنے کی وجہ بلکل ظاہر ہے کہ وہ سب یہ ایک بہتر کل کی امید کر رہے ہیں۔ 

آئیے اس پر انسان دوست انداز میں غور کریں، آئیے اپنے آپ کو ان لوگوں کے دکھوں سے آگاہ کریں، جنہیں آپ کے ملک میں خوشی اور امید کی ایک چھوٹی سی جھلک تلاش کرنے کے لئے دوزخ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 

ہم نے دیکھا اور سنا ہے کہ 22 اپریل 2018 کو ایک دہشت گرد حملے میں 57 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ کیا جانتے ہیں آپ ان 57 افراد کے بارے میں، ان کے اہل خانہ کے بارے میں جو اپنے پیاروں سے بچڑنے کا سوگ منا رہے ہیں، زخمیوں اور ان کے لواحقین کے بارے میں جو تکلیف میں ہیں؟ ہر روز لوگوں کو پھانسی دی جاتی ہے اور قتل کیا جاتا ہے۔ اگر یہ مہلک حملہ، جو افغانستان میں ہوا، کسی دوسرے ملک میں ہوا ہوتا، تو کیا عالمی برادری کا رد عمل ایسا ہی ہوتا؟ 

*یہ مضمون “پناہ گزین پرندے” اخبار کے شمارہ نمبر 8 میں شائع ہوا ہے، جسے 25 مئی 2018 کو اخبار “افیمریدا تون سنتاکتن” (ایڈیٹرز کے اخبار) کے ساتھ ملحقہ کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔ 

Add comment