ہمارے زمانے میں میڈیا شہریوں کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہےاور اس عمل میں کلیدی کردار صحافی ہوتا ہے۔نو دنیا کے ساتھ رابطہ کرتاہے معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کو جانتا ہےاور حقیقت کی کھوج کرتا ہے۔صحافی بننے کا مطلب شہریوں کو آگاہ کرنا ہے کہ پس منظر کیا ہو رہا ہے۔
جبکہ بعض اوقات معلومات سے صحافی کی جان بھی جا سکتی ہے۔تنظیم “صحافت بغیر سرحدوں کے” کے مطابق اکتوبر 2020 میں بد قسمتی سے پچاس صحافیوں کو قتل کیا گیا درحقیقت ان واقعات میں سے دو تہائی کو نام نہاد پر امن ممالک میں نوٹ کیا گیا تھا۔ 2020میں 387 صحافی اپنے کام سے متعلق وجوحات کی بنا پر جیلوں میں بند تھے۔ان پچاس صحافیوں کی موت ایک لحاظ سے آزادی کی موت تھی جبکہ کچھ ممالک نے نظریاتی طور پر پیشے میں تحفظ کے احساس کی پہچان کی۔۔
تیز ترین آواز کو ہدف بناءے رکھنا اور معلومات جمع کرنے کے پچاس براہ راست ذرائع کا نقصان ہے۔ایک معاشرہ بغیر صحافی کے ایسے ہی ہے جیسے کہ بغیر زبان آنکھ اور کان کے۔۔
بارڈرز پینٹرز کے سیکرٹری جنرل کرسٹوفر ڈیلور کا کہنا ہے کہ بعض لوگوں کے نظریہ کے مطابق کہ کچھ صحافی اپنے پیشے کے اعتبار سے خطرات کا شکار ہو سکتے ہیں ۔لیکن حساس معاملات کی تفتیش یا کوریج کرتے وقت صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو حملہ کیا جاتا ہے اس کی معلومات کا حق سب کا حق ہے۔۔
یہاں پر معقول سوال یہ ہے کہ کچھ شہریوں کو آگاہ کرنے سے کیوں ڈرتے ہیں معاشرے کی سچائیوں کو کیوں نہ سیکھا جائے۔صحافی کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ ایک اعلی سرکاری عہدے دار کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے اور “کیوں” عوام کی فکر میں پوچھ سکتا ہے۔ہمارے معاشرتی طور پر بہت سارے سوالات مسائل ہیں جن کی آواز صحافی بنتا ہے اور ان سوالات کو مجاز اتھارٹی کے سامنے رکھتا ہے۔ایک شہری کی معاشی حالت کیوں ابتر ہے ہمارے پاس زیادہ نوکریاں کیوں نہیں ہیں۔کیں ہمارے پاس اظہارِ رائے کی آزادی نہیں ہے۔۔
کیوں سیاسی پناہ کی درخواستوں پر عمل سست روی کا شکار ہے،کیوں سخت سردی کے باوجود ٹیپ کے پاس نءی لہر سے نمٹنے کے لیے مناسب انفراسٹرکچر نہیں ہے کیوں صحافیوں کو ٹیپ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔اگر تم صحافی ہو تو تم معاشرے کے مختلف طبقات کی آواز ہو۔تمام پیشوں کو سلامت رکھنا ضروری ہے۔
کیوں ہر سال دنیا کے مختلف حصوں میں صحافیوں کو قتل کیا جاتا ہے،جیلوں میں بند کیا جاتا ہے یا ان کے حقوق کو ہذف کیا جاتا ہے۔حقیقت میں شاید ان کے کام کے متعلق کھوج صحیح نہیں لگایا گیا یا آزادی کے تصور کو سمجھا نہیں گیا۔ بلکہ کچھ معاشروں میں یہ اب بھی نامعلوم حق ہے بہت دفعہ ہم نے صحافیوں کو چیلنج کیا ہے کبھی ان کی باتیں سننے بھی بیٹھ جایا کروان کے سوالات کا جواب کون دے گا ان کی آواز کون بنے گا میں نے بعض کو سنا ہے ان میں سے ایک نے مجھے بڑی دلچسپ بات بتائی کہ اگر وہ ان پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ یقیناً کام سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ذرا سوچئے آپ میں سے کتنے ہوں گے جو اپنا آمدنی کا واحد ذریعہ معاش کھونا چاہیں گے۔ ذرا حقیقت کا تصور کریں کہ آپ معاشرے کی تشکیل کے لئے اپنی جان گنوانے کے لیے تیار ہیں۔
اور صحافی عورتیں اپنی جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنتی ہیں”صحافت بغیر حدود کے” کے مطابق یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جن صحافی عورتوں کو من مانی طور پر حراست میں لیا جاتاہے۔2020 میں ان کی تعداد میں 35% اضافی ہوا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ وہ صحافی جو بہت کم تنخواہ پر کام کرتے ہیں صرف اور صرف ایسے میڈیا پر کام کرتے ہیں جن کی کوشش ہوتی ہے کہ سچ کو صحیح معنوں میں اجاگر کیا جائے اور ایسے میڈیا میں کام نہیں کرتے جن میں ان کو زیادہ تنخواہیں دی جاتی ہیں کہ وہ حکم کے مطابق باتیں لکھیں۔۔
مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود ایسے صحافی ہیں جو کوشش کرتے ہیں کہ سچ کہا جائے اور درست طریقے سے خبر شائع کریں۔۔۔۔ہم ان کی عزت کرتے ہیں جو ہر انسان کے ناقابل معافی حق کی نشاندھی کرتے ہیں۔۔
دعا ہے کہ ایسا دن آئے کہ نہ وہ جیل جائیں اور نہ ان کی جانیں جائیں کیونکہ وہ سچ بیان کرتے ہیں
Add comment