مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو تھیٹر کے بارے میں جاننے، اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور اپنے تجربات کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہی ہے تھیٹر آف انٹیگریشن جس کے بارے میں، میں اخبار کے 7 ویں شمارے میں لکھ چکا ہوں۔
پیترو پیتسونس کے پاس پوری دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے ایک پروجیکٹ بنانے کا حیرت انگیز خیال تھا جس سے مختلف ممالک کے نوجوانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے اور ایک دوسرے کی ثقافت کے بارے میں جاننے میں مدد فراہم ہوگی۔
5 اور 6 مئی کو، انٹیگریشن کے اداکاروں نے آرگو تھیٹر کی پرفارمنس میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جسے انتہائی کامیاب سمجھا گیا۔
شو کے اختتام پر، بہت سارے لوگ ہمارے پاس مبارکباد دینے کے لیے آئے اور بتیا کہ وہ کتنا لطف اندز ہوئے پرفارمنس سے۔ ان میں سے بہت سے لوگ اسے دوبارہ دیکھنا چاہتے تھے۔ کیونکہ بہت سارے لوگوں نے اس بات اعتراف کیا تو ہم نے دوسری بار پھر پرفارمنس کی۔
پرفارمنس کے اصل ڈائریکٹر جیورگوس کالوکسلوس تھے جنہوں نے تھیٹر کے بارے میں ہمیں بہت کچھ سکھایا تھا۔ مشق کے مرحلے کے دوران انہیں ذاتی وجوہات کی بناء پر استعفی دینے پڑا، لیکن پھر بھی ان کے الفاظ مجھے یاد ہیں، جو واقعی حوصلہ افزائی والے تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ایک اداکار اپنا پہلا قدم سٹیج پر رکھتے ہی اداکار بن جاتا ہے اور پھر ایک ادکار کچھ بھی کر سکتا یے۔ یہاں تک کہ ان کے جانے کے بعد بھی، تمام اداکار انہیں بہت محبت سے یاد کرتے۔
اس کی جگہ ایک ماہر نفسیات، اداکار اور اسٹیج ڈائرکٹر، زو سانٹا نے لی، جن کے ساتھ ہم نے ارسطوفایس ’’دی پرندوں‘‘ پر کام کیا تھا۔پ روڈکشن میں بہت دلچسپ تھی اور آخر میں، میں نے ان سے انکا انٹرویو لینے کو کہا۔
نجف: آپ اپنے بارے میں بتائیں، آپ تھیٹر میں کیسے شامل ہوئیں؟
زوئی: میرے والدین کو تھیٹر سے بہت پیار تھا اور کیونکہ وہ بچوں کی دیکھ بال کرنے والی نینی کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے تھے، تو اس لئے وہ مجھے اپنے ساتھ ڈراموں میں لے جاتے تھے۔ اور اسی طرح، میں نے مشہور یونانی اداکاروں کو دیکھا جو اب تھیٹر کی تاریخ کا حصہ ہیں اور یونانی ثقافت کا بھی ایک بڑا حصہ ہیں۔ میرے لئے تھیٹر ایک دوسری قدرت اور دوسرا گھر ہے۔ میں پہلی بار اسٹیج پر اس وقت گئی جب میں نو سال کی تھی۔ ڈائریکٹر بننا میرے لئے ایک دلچسپ کھیل کو دریافت کرنے کی طرح تھا اور 11 سال کی عمر میں میں نے اپنے پہلے ڈرامے کی ہدایت کاری کی تھی۔ میں نے تعلیم ڈیلوس ایکٹنگ اسکول حاصل کی تھی اور 2004 میں، میں نے وزارت ثقافت سے ڈرامہ کی ڈگری حاصل کی۔ان دنوں میں، تھیٹر کی کوئی الگ اکیڈمی نہیں ہوتی تھی لہذا اس طرح میں نے اداکاری اور پیشہ ورانہ طور پر ہدایت کاری کرنا شروع کردی۔ تھیٹر آف انٹیگریشن میں، میں نے بہت سے لوگوں سے ملاقات کی جو کہ واقعی تھیٹر میں سنجیدگی سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ در حقیقت، میں نے اس کا نام تبدیل کرکے “نئی زندگی (نیہ زوئی)” رکھنے کا فیصلہ کیا، ایک نیا نام میرا خودکا!
جیسا کہ ڈائریکٹر نے کہا ، یہ قدرتی ہے کسی کے اپنی کہانی بتانا، زیادہ تر لوگوں کو یہ کرنا چاہیئے۔تھیٹر آپ کو موسیقی، رقص یا کسی اور آرٹ فارم کے ذریعہ ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ آخر میں، تھیٹر میں زبان ایک بوجھ نہیں ہے، جیسا کہ اس حقیقت سے دیکھا جاسکتا ہے کہ تھیٹر آف انٹیگریشن میں سات مختلف ممالک کے لوگوں نے دو شاندار کارکردگیاں دکھائیں۔
Add comment