افغان خواتین کا کام کرنا اتنا غیر معمولی نہیں ہے جیسے پہلے ہوتا تھا، چونکہ یہاں یورپ کے بیشتر لوگ انسانی حقوق اور مساوات کا احترام کرتے ہیں۔تاہم، اب بھی اکثر افغان افراد مردوں کے سیلون میں کام کرنے والی خواتین کو ممنوع سمجھتے ہیں اور ایسی نوکری کرنے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔
جیسا کہ لگتا ہے کہ شبانہ میں اپنا کام جاری رکھنے کی وہ ہمت تھی۔ وہ 23 سال کی ایک افغان لڑکی ہے، جو ایران میں پیدا اور بڑی ہوئی۔ اسے بچپن سے ہی ہیئر ڈریسنگ اور میک اپ میں دلچسپی تھی اور 15 سال کی عمر میں ہی اس نے ایران کے ایک بیوٹی پارلر میں کام کرنا شروع کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ “یونان میں کام کرنے کا طریقہ ایران سے مختلف ہے، کیونکہ یہاں بیوٹی سیلون مرد اور خواتین دونوں کے لئے ہیں۔”اس نے ماضی میں کبھی بھی مردوں کے سیلون میں کام نہیں کیا تھا اور شروع شروع میں وہ بہت ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔
اسے روزانہ بہت سارے صارفین سے نمٹنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے، افغان صارفین کے ساتھ نمٹنا ابی بھی آسان کام نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ اسے اپنے بال کاٹنے یا شیو نہ کرنے دیتے، جبکہ کچھ اسے گھورتے جیسے وہ کوئی اجنبی ہو اور یہاں تک کہ اس کا مذاق بھی اڑاتے۔ اس کے علاوہ، اس کے ساتھ کام کرنے والا افغان ساتھی اسکا وہاں کام کرنا پسند نہیں کرتا۔ جب بھی کوئی صارف اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے تو وہ پاگل ہو جاتا اور معمولی غلطیوں پر اسے چیخنا شروع کردیتا۔
وہ بہت عرصہ پہلے ہی اس ملازمت کو چھوڑ دیتی، لیکن خوش قسمتی سے اس کے گھر والے جو اس کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے جب بھی وہ ہار مانتے ہوئے محسوس کرتی۔ شبانہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بیٹی جرت مند ہو اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا طریقہ سیکھے، کسی اور سے مدد کی توقع نہ کرے۔
شبانہ کو ایک اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ اس کی والدہ کو بھی کیمپ میں ہر روز طنز کا سامنا کرنا پڑتا، جب کیمپ دوسری خواتین اسکی بیٹی کے پیشے کے بارے میں بات کرتی ہیں۔ لیکن وہ کبھی مایوس نہ ہوتیں، حالانکہ، اور نہ ہی وہ شبانہ کو ہونے دیتی۔ ان ساری پریشانیوں کے باوجود بھی شبانہ اپنے پیشہ سے اب تک بہت خوش اور مطمئن ہے اور وہ اسے جاری رکھے گی۔
*یہ مضمون “پناہ گزین پرندے” اخبار کے شمارہ نمبر 12 میں شائع ہوا ہے، جسے 2 مارچ 2019 کو اخبار “افیمریدا تون سنتاکتن” (ایڈیٹرز کے اخبار) کے ساتھ ملحقہ کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔
Add comment