آپ 24 گھنٹوں میں کر کیا کرتے ہیں؟ اسکول جاتے ہیں، اپنے دوستوں کے ساتھ فٹ بال کھیلتے ہیں، گھر جاتے ہیں، اپنا ہوم ورک کرتے اور یوٹیوب پر کچھ ویڈیوز دیکھتے ہیں۔
میرے خواب سادہ تھے، میں آرکیٹیکٹ بننا چاہتا تھا۔ میں سمجتا تھا کہ میرا یہ خواب پورا ہوسکتا ہے جیساکہ میں ایک اچھا طالب علم تھا، تمام مضامین میں اچھے گریڈ لیتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سب 24 گھنٹوں میں بدل گیا۔
یہ 9 جون پیر کا دن تھا، ایک عام سے دن کی طرح۔ میں نے ابھی اپنی مشقیں ختم کیں ہی تھیں تو سونے کا وقت آگیا تھا، لیکن کسی وجہ سے میں سو نہیں پایا تھا۔ ایک لمحے سے دوسرے لمحے تک، میری محفوظ جنت ایک خطرناک جگہ بن گئی تھی۔ 10 جون کی صبح 3 بجے کا وقت تھا جب ہم نے فائرنگ کی آواز سنی۔ہمارے پاس اپنے دفاع کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ میں اور میرے والد یہ جاننے کے لئے باہر گئے کہ کیا ہو رہا ہے۔ سڑکیں خالی تھیں، تو میرے والد نے پولیس اسٹیشن جانے کا فیصلہ کیا، پوچھنے کے لئے کہ کیا ہو رہا ہے۔ہم نے سنا تھا کہ ہمارے شہر سے تھوڑا ہی دور دہشت گرد موجود تھے، جو ہمارے پر حملہ کرنے کی دھمکی دے رہے تھے۔ ہم خوفزدہ نہیں تھے کیونکہ میئر نے پوری حفاظت کے ساتھ شہر کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے اپنی ایک ویڈیو جاری کی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔
جب میرے والد واپس آئے تو انہوں نے کہا کہ پولیس اسٹیشن میں تو کوئی نہیں تھا، اس میں آگ لگی ہوئی تھی۔میرا دل تیزی سے دھڑکنا شروع کردی۔ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا کہ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ میں سانس نہیں لے پا رہا تھا۔ کس طرح سے وہ فرشتے ہمیں تنہا چھوڑ رہے ہیں، جنہوں نے ہمیں محفوظ رکھنے کی ذمہداری اٹھا رکھی تھی۔
برسوں کے خواب اور امیدیں ایک ہی دن میں بکھر گئیں۔ میری ساری زندگی میری نظروں کے سامنے سے گزری اور میں نے خود سے پوچھا کہ ہمارے ساتھ ہونے کیا والا ہے۔میری والدہ نے مجھے گلے لگا لیا۔ انہوں نے کہا کہ، “سب ٹھیک ہو جائے گا، جاؤ اور آرام کرو”۔ میں منہ دھو کر بستر پر چلا گیا۔صبح 5 بجے تھے۔
ہم ایک نئی، ناواقف حقیقت میں جاگ گئے۔ ہیرو کے بھیس میں شیطان ہمیں بتا رہے تھے کہ وہ ہمیں بچانے اور ہماری مدد کرنے کے لیے آئے ہیں۔ ہم نے کھویا ہوا محسوس کیا۔ کچھ لوگ انہیں خوش کر رہے تھے۔ میں صرف اتنا ہی سن سکتا تھا کہ شیطانوں کی خوفناک آوازیں ہماری زندگیوں کو تباہ کرنے آرہی تھیں۔ یہ سب ایک دن میں ہوا۔ خوف اور خوابوں سے بھرے 24 گھنٹے بغیر کسی کے کچھ کیے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں۔ صرف ایک ہی چیز ہم کرسکتے تھے کہ اب طرف دیکھیں۔ یہ میرے شہر پر آئسس (دائش) کے قبضے کا پہلا دن تھا۔
*یہ مضمون “پناہ گزین پرندے” اخبار کے شمارہ نمبر 13 میں شائع ہوا ہے، جسے 25 مئی 2019 کو اخبار “افیمریدا تون سنتاکتن” (ایڈیٹرز کے اخبار) کے ساتھ ملحقہ کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔
Add comment