Lonely young man shot from behind at subway station with blurry moving train in background

میں اب 18 سال کا ہوگیا ہوں، اب کیا ہوگا؟

آئیے یونان کی آبادی کے بارے میں بات کرتے ہیں، جن کو چند مواقعوں کے ساتھ بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

ان کی آواز کو بہت کم مرکزی میڈیا میں سنا جاتا ہے جبکہ مشکل صورت حال میں ان کی کوئی بھی مناسب طریقے سے رہنمائی نہیں کرتا۔ کیا وہ کم سن ہیں یا بالغ؟ ایک طرح سے دیکھا جائے تو انہیں کم سن سمجھا جاتا ہے، کیونکہ جب بات ان کی اپنی زندگیوں کے بارے میں فیصلہ کرنے اور آزادی پر آتی ہے تو وہ معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے قاصر ہیں۔ دوسری جانب، جب وہ مدد یا حمایت کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں سب کوچھ خود سے کرنا پڑتا ہے چونکہ اب وہ بالغ ہیں۔ 

لہذا، ایک اور سوال یہاں پیدا ہوتا ہے: کیا سب کچھ خود سے کرنا ممکن ہے، بغیر کسی مدد کے، جب آپ کسی نئے ملک اور نئی صقافت میں ایک ایسی شخصیت کی طرح پہنچتے ہیں جو حال ہی 18 سال کا ہوا ہو؟

  1. پناہ کے طریقہ کار: انٹرویو کی غیر معقول تاخیر، جو یونان میں نابالغ ہونے کے طور پر پناہ گزیں کی درخواست جمع کرانے کا پہلا مسلہ ہے۔ بعض اوقات آپ کو ایک سال سے زائد عرصے تک انتظار کرنا پڑتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک آپ بالغ ہو چکے ہوںگے اور پناہ گزین سروس کے لئے آپ کی درخواست کو مسترد کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، وکیل تلاش کرنا بہت مشکل ہے، اور اگر آپ کر بھی لیتے ہیں تو آپ کو ایک نیے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑے گا، یعنی اسکول کی غیر حاضری کا، کیونکہ آپ کو صبح کے وقت وکیل سے ملاقات اور پناہ گاہ کے دفتر میں جانا پڑتا ہے۔
  2. رہائش اور حمایت: پناہ گاہیوں میں، سماجی کارکن، وکلاء، ماہرنفسیات اور سرپرست آپ کے ساتھ ہوتے ہیں جو نابالغوں کی مشکلات سے نمٹنے اور ان کی ہر چیز تک رسائی کو یقینی بناتے ہیں۔ آپ کو خوراک اور طبی دیکھ بھال کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ جب آپ 18 کے ہو جاتے ہیں تو آپ بچوں کی پناہ گاہ میں نہیں رہ سکتے اور نہ ہی آپ کو سامان اور خدمات تک مفت رسائی حاصل ہوتی ہے۔ آپ ایک ہفتہ ایک بار اپنے سماجی کارکن سے ملاقات کرسکتے ہیں یا وہ بھی نہیں اور آپ کو کسی بھی چیز کے لئے ملاقات کے وقت لینا پڑتا ہے۔
  3. تعلیم: مجھے اسکول کے علاوہ تعلیم کا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا۔ تعلیم 18 سال کی عمر تک ہی فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے بعد، آپ کو یونانی طلباء کی طرح کے طریقہ کار پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ تصور کریں، ایک غیر ملکی ہائی اسکول میں دو یا تین سال شرکت کرنے، جہاں ہاں کی آپ زبان بھی بمشکل سمجھتے ہوں اور آپ ڈپلوما حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قومی امتحانوں حصہ لینا۔ کیا آپ کے لئے یہ آسان ہوگا؟ میرے خیال سے ہائی سکول کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھنے والے غیر ملکی طالب علموں کے لئے زیادہ توجہ مرکوز پروگرام ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

مجھے امید ہے کہ یہ مضمون ان تمام لوگوں کی آواز بلند کرہا ہے جو 18 سال کے ہوتے ہی اس طرح کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ کسی نہ کسی طرح سے اس نقطہ پر جہاں پر اب تم توجہ نہیں دیتے ہو۔ چلو اب ہم اس عمر کے زمرہ کو نہ بھولیں کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

*یہ مضمون “پناہ گزین پرندے” اخبار کے شمارہ نمبر 13 میں شائع ہوا ہے، جسے 25 مئی 2019 کو اخبار “افیمریدا تون سنتاکتن” (ایڈیٹرز کے اخبار) کے ساتھ ملحقہ کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔

ابوبکر جہانگیر

Add comment