جیسا کہ میں کامیاب یونانی فلم کے عنوان سے متاثر ہو کر بنائے جانے والے ایک کامیاب ڈرامے”جاگو واسیلی” میں بیٹھی تھی، جہاں میں خاص طور پر اسی پیغام میں دلچسپ تھی جوکہ میں پہنچانے کی کوشش کر رہی تھی۔
ڈرامے کے آغاز میں، مرکزی کردار واسیلی، کی تعریف اس کے ارد گرد سب کی طرف سے کی گئی۔ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تر لوگ سوچتے کہ وہ بہت قابل ہے، معاشرے میں ان کو ان کے سیاسی نظریہ کی وجہ سے دیکھا گیا۔ لیکن جب واسیلی کے بہنوئی نے لاٹری جیتی، تو پورا خاندان 180 ڈگری پر موڑ گیا اور واسیلی، جو اپنے آپ سے سچا تھا، پھر بھی لوگوں نے اسے ہی جج کیا۔ناگوار ، منافقانہ اور مادیت پسند ماحول میں واسیلی وہ واحد منطقی اور صاف گو شخص ہے، جو اس تبدیلی سے کو نہیں مانتا، جو پیسے نے اسکے دوستوں اور خاندان والوں میں لائی ہے۔ اس کے مختلف ہونے کے نتیجے میں، وہ وہ ہے جس میں ہر کوئی اسے عجیب اور غیر منطقی ہونے کی طرف کا اشارہ کرتا ہے، اور اسے نفسیاتی کلینک کا پابند کر دیا جاتا ہے۔
ڈرامے کے گہرے معنی کے بارے میں سوچتے ہوئے، میں اس حقیقت کی طرف راغب ہوی کہ اس کی بیان کردہ صورتحال معاصر معاشرے کے بہت سے روزمرہ پہلوؤں میں عیاں ہوتی ہے۔ ہم اپنے آپ کو ایسی چیزوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں ہم مختلف یا “غیر فطری” محسوس کرتے ہیں۔ہ م مستقل طور پر کسی شخص کی محواتی، “غیر معمولی” خصوصیات کو تلاش کرنے کی کوشش کر تے ہیں اور پھر ہم انہین جج کرنے کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں۔ اور اگر ہم ان خاص خصوصیات کو مان بھی لیتے ہیں تو، پھر بھی ہم ہمیشہ کسی کو پسماندہ کرنے کی کوئی اور وجہ تلاش کر تے ہیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں، یہ سلسلہ بنی نوع انسانوں کے آغاز سے ہی چل رہا ہے۔ تاہم، ہم اس پر قابو پانے کے لئے تھوڑی بہت کوشش کرتے ہی ہیں، پر ایسا لگتا ہے کہ اس کا رجحان ختم نہیں ہو رہا ہے۔ یہ فکر مندرجہ ذیل سوالات کی طرف لے جاتی ہے: کیا جج کرنے والے نقطہ نظر کو ختم کرنا ممکن ہے؟ اور اگر ایسا ممکن ہے تو، پھر ہم نوجوان اس جنگ کو لڑنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟
سچ یہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں ہماری نسل نے ہر شکل میں دوسرے پن کو قبول کرتے ہوئے بہت بڑی پیشرفت کی ہے۔ تاہم، ابھی بھی راستہ طویل ہے۔ بالآخر، ہوینی دی پوہ کا مشہور حوالہ ہمیشہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے: “جو چیزیں مجھے مختلف بناتی ہیں وہی چیزیں ہی مجھے بناتی ہیں!”
Add comment