Photo by Elias Sharifi

پوشیدہ سرحدیں

ہماری روزمرہ کی زندگی میں، جیسے جیسے ہم شہر میں چلتے جاتے ہیں، تو ہم مختلف، عجیب و غریب لوگوں کو دیکھے ہے جو ہمیں خوف اور خطرا محسوس کروا سکتے ہیں۔ لیکن کیا اس کی اصل وجہ ان کے حالات ہیں؟ یا یہ ہے کیونکہ وہ ہمارے لئے انجان ہیں اور ہمارے دماغ میں ان کے لیئے دقیانوسی تصورات ہیں؟

لفظ “پوشیدہ سرحدوں” کا مطلب وہ سرحدیں ہیں، جو غیر ملکی سیاحوں، تارکین وطنوں اور پناہ گزینوں کو ملک میں مقیم مقامی لوگوں سے الگ کرتی ہیں. جس میں زبان، سیاسی عقائد، مذہب اور ثقافت جیسی چیزیں شامل ہیں۔ پر وہ نمودار(ظاہر) نہیں ہوتی ہیں۔

ہم انٹرویو ہونے والے لوگوں کی مختلف کہانیاں اور تجربات کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ جب وہ نئی جگہ پر پہنچے تو وہ چیلنجوں(مشکلات) کا کیسے سامنا کر سکتے ہیں:

ٹی.، ایتھنز میں ایک سیاح کے طور پر، کسی دوسرے مذہب سے تلق رکھنے والی عورت کا کسی ملک میں ہونے، لوگوں کے درمیان مختلف نقل و حرکتات کرنے، مختلف لباس اور اپنی ثقافتی چیزیں پہنے، عجیب احساسات کا کو محسوس کرنے سے، وہ کبھی بھی لطف اندوز ہوسکتی ہے۔ 

چ.، یونان میں عارضی طور پر رہنے والی ایک غیر ملکی، جس کو دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جب اسے دوا کی ضرورت پڑی تو پیچیدہ  صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو  دیکھ کر الجھن محسوس کی، لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ یونان میں اپنے حقوق اور قوانین سے واقف نہیں تھی۔ ایتھنز کے مختلف پڑوس سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے اسے گھر تلاش کرنے میں بھی بہت مشکلات کا سامنا پڑا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ایک عورت ہونے کے ناتے وہ غیر ملک میں اپنے آپ کو کبھی کبھی اکیلا اور غیر محفوظ محسوس کرتی ہے۔ 

ایم، ایتھنز میں رہنے والے ایک پناہ گزین، عام طور پر اس کی ظاہری شکل، مختلف زبان یا اس کے لباس کی وجہ سے اسے ایک اجنبی کے طور پر سمجھا اور دیکھا جاتا ہے، جو اس کے مذہب سے منسلک ہے، جیسا کہ وہ شہر میں چلتا ہے تو مقامی لوگوں کی طرف سے اس پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ مقامی لوگوں کی طرح اسے اپنی مالی حالت تبدیل کرنے کے لۓ برابر مواقع بھی فراہم نہیں ہیں۔ 

ان لوگوں کے بارے میں وافر معلومات کی کمی، سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا اور سیاسی کھیلوں کے ذریعہ یہ سرحدیں مزید پھیل گئی ہیں۔ پوشیدہ سرحديں بڑی دشواریوں کا سبب بن سکتی ہيں، جیسے کہ اندازانہ فیصلوں کے رویے، منفی خیالات یا نسل پرستی جو جرائم کی قیادت بھی کرسکتی ہے۔ 

اگر ہم اسی طرح چلتے رہے، تو ہم ایک دوسرے کے بارے میں انجان رہیں گے۔ ان سرحدوں کو توڑنے کا بہترین طریقہ دیگر ثقافتوں اور زبانوں پر تعلیم، باہمی احترام، انضمام کو فروغ دینے والے پروگراموں میں حصہ لینے اور ہماری مواصلاتی صلاحیتوں میں بہتری کرنے سے ان سرحدوں کو توڑا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے، ہم اپنے خیالات اور عقائد کا اشتراک کرنے کے، اپنی انفرادی ثقافت کو دوسروں کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور آخر میں معاشرے کو زیادہ تنوع بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 

دوسرے ممالک سے آنے والے لوگ اجنبی نہیں ہیں۔ مقامی لوگ ان لوگوں کے قریب ہوسکتے ہیں۔ ہم ان سرحدوں کو توڑنے کے لئے پورے ذمہ دار ہیں، تاکہ ہم دوسروں کے حقیقی چہرے دیکھ سکیں اور حقیقت کو جان سکیں۔ ہم دوسری ثقافتوں، مذاہبوں، زبانوں اور تجربات کو تلاش کر سکتے ہیں اور انسانوں کے ساتھ لمحات کا اشتراک کر سکتے ہیں.

Add comment