Photo by Migratory Birds Team

یلو ڈیز: ایک تہوار سے بڑھ کر۔

جدیدیت اور سوشل میڈیا کے اس دور میں، روایات، ثقافت اور فنون کے نقصان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ خاص طور پر ان علاقوں میں پریشان کن ہے جو مضبوط زبانی روایات اور انوکھے رسم و رواج کی خصوصیت رکھتے ہیں، ذیادہ تر ثقافتی طرز عمل جیساکہ کہانیاں سنانے، موسیقی، آرٹس اور معاشرتی انضمام کی شکل میں، جن کا اس عظیم تبدیلی کے وقت میں کھو جانے کا خطرہ ہے۔

میں نے نیلو آونسو کے ساتھ اس پر بات کرنے کا فیصلہ کیا، جوکہ ییلو ڈیز کی بانی اور کے اس کے منتظمین میں سے ایک ہیں۔ جیسا کہ اس کے فیس بک پیج پر وضاحت کی گئی ہے کہ، “یلو ڈیز ایک ثقافتی اجتماع ہے جہاں کھانے، موسیقی اور آرٹ کے ذریعے، بے گھر ہونے والی عربی برادریاں اور مقامی یورپی متحد ہوتے ہیں۔” دوسرے لفظوں میں، ییلو ڈیز ایک تہوار ہے اور یہ27 اور 29 ستمبر کے درمیان، ایتھنز میں، اسکول آف فائن آرٹس میں ہوا تھا۔

میں نے نینا الونسو سے پوچھا کہ انکی اس میلے کا اہتمام کرنے کی کیا وجہ ہے؟”میں ان لوگوں سے متاثر ہوتی ہوں جو ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہہرتے ہیں، اپنی صلاحیتیں بانٹتے ہیں اور چیزیں تخلیق کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، تین سال پہلے، میں لیروس جزیرے میں پناہ گزین کیمپ میں رضاکار تھی۔جب میں وہاں پہنچی تو مجھے لگا کہ محض کھانا اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کے علاوہ مذید انسانی امداد کے لئے کچھ ضروری ہے۔ کس چیز کی کمی تھی، لوگ اکٹھے ہونے، کہانیاں بانٹنے، رونے، ہنسنے اور ساتھ کھانا پکانے کی کمی تھی۔۔۔ ”

اس نے نے مزید بتایا کہ جب وہ لیروس کے کیمپ میں تھی تو انہوں نے کھانا پکانے، موسیقی بجانے اور ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے لوگوں کو ایک ساتھ لانے کا فیصلہ کیا۔ اور اسی طرح، 2016 میں، میلے کا خیال پیدا ہوا تھا۔ تو جب وہ واپس لندن پہنچی تو انہوں نے اس (آڈئیے) خیال کو پھیلادیا اور دلچسپی ظاہر کرنے والوں کو اپنی ٹیم میں شامل ہونے کے لئے مدعو کیا۔ انہوں نے فنڈ اکٹھا کرنے کے پہلے پروگراموں کا انعقاد لندن میں کیا، جس میں کچھ تقریبات شروع ہوئیں اور پھر ورکشاپوں اور نمائشوں سے آگے بڑھ گئیں۔

پہلا میلہ،2017 میں، لیروس جزیرے پر ہوا۔ “مقصد یہ تھا کہ مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ایک گروپ کو اپنی ثقافت کا اشتراک کریں اور ایک ساتھ مل کر ہنسیں۔” نینا الونسو نے کہا، “مجھے لگتا تھا کہ یہ اتنا طاقتور اور مثبت ہے!”۔ تب لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس تہوار کو ایتھنز میں لے جانا چاہئے تاکہ یہ تخلیقی لوگوں کو ساتھ لانے کا ایک پلیٹ فارم بن سکے، جس سے وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے آگے بڑھیں۔ تو اسی طرح 2018 اور 2019 میں ییلو ڈے کا اختتام ایتھنز میں میں ہوا۔

لیکن کونسی چیز اس تہوار کو خاص بناتی ہے؟ نینا الونسو نے کہا: “یہ انسانی ہمدردی کے بحران کے جواب میں عملی اقدامات کی طرف بلاوا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو مشترکہ طور پر ایک مقصد کی سمت پر کام، مل کر کچھ تخلیق کرنے کے لیے ہے۔ مختلف ثقافتوں کے لوگ ایک غیرجانبدار جگہ میں جمع ہوتے ہیں جہاں سب لوگ برابر اہم ہوتا ہے۔ بلکہ ییلو ڈیز بھی آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے عملی اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے۔”ہماری رائے کے مطابق، قدرت کو سمجھنے اور اس کا احترام کرنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے ایک دوسرے کا احترام کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق پناہ گزینوں کا بحران تو ابھی شروع ہوا ہے، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی مزید لوگوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرے گی۔ ہمیں ثقافتوں کے مابین پل بنانے کی ضرورت ہے۔

یلو ڈیز لوگوں کے لئے چیزیں بانٹنے، مفت کھانوں سے لطف اندوز ہونے، کھانا پکانے، ایک میز کے گرد بیٹھنے، مل کر آرام کرنے، کھانے اور پھر کھانے کے بعد خیالات کا تبادلہ کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم ہے۔ چنانچہ نوجوان صخافیوں کی ہماری ٹیم نے 27 ستمبر2019 کو ییلو ڈیز میلے میں جانے کا فیصلہ کیا۔وہاں تمام برادریوں کے لوگوں کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ کھانے، موسیقی، رقص، آرٹس اور بہت سی چیزوں کے ساتھ مختلف برادریوں کو تین دن کے لئے ایک جگہ پر اکٹھا کرنے کا ایک طریقہ تھا۔

لوگ مختلف طریقوں سے ثقافت تک رسائی حاصل کرتے ہیں: میوزیم، لائبریریوں اور پرفارمنس کے ذریعہے، تعلیمی تبادلے کے ذریعہے، میڈیا اور سنیما کے ذریعے اور انٹرنیٹ کے ذریعے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا، تقسیی نظام سے، ایسی پالیسیاں جو ثقافتی انفراسٹرکچر تک کی رسائی کو فروغ دیتی ہیں وہ شہریوں کی تخلیقی صلاحیتوں کے لئے ناگزیر ہیں۔ اور اسی لیے یلو ڈیز ضروری تھا۔

میلہ کے دروازے سہ پہر تین بجے اسکول اوف فائن آرٹس میں کھلے اور وہاں دیکھنے اور کرنے کے لئے بہت کچھ تھا انٹرایکٹو ورکشاپس، گروپ گیمز جیسی چیزوں کا اہتمام کیا گیا، جہاں لوگ اکٹھے ہوئے اور کسی ایک ہی لازم زبان بولنے کے بغیر حصہ لیا۔ ماحولیاتی آگاہی کی ورکشاپس بھی تھیں، جو ری سائیکلنگ مواد سے آلات تیار کرنے کے طریقے پیش کرتی رہی تھیں۔ میں نے ورکشاپ کے گروپوں کا دورہ کیا، ہنر مند کاریگروں کو دیکھا اور یہاں تک کہ لیگو (کھلونوں) سے زیورات بنانا سیکھا۔ اس خیال کا مقصد چیزوں کا دوبارہ استعمال کرنا سیکھنا تھا، اور لوگوں کی طرف سے بنائے جانے والے کچرے کو کم کرنا تھا۔ یہ روایتی کھانوں، جیسے سموسے اور فافیل کا مزہ چکھنے کا ایک بہترین موقع تھا۔ مرکزی رات کا کھانا شام 8 بجے تھا اور یہ بنیادی طور پر یونانی کھانا تھا۔ لیکن سب سے مزے کی بات وہ لمبی میز تھی جس پر تقریبا 300 افراد اکٹھے بیٹھے اور اپنے کھانے سے لطف اندوز ہوئے۔ یہ ایک بہت ہی خاص چیز تھی کہ ایک ہی میز پر مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔

جب میں نے نینا الونسو کو اس تہوار میں اپنے خاندان اور دوستوں کی میزبانی کرتے ہوئے دیکھا تو مجھے وہ وقت یاد آیا جب میں مارچ کے آخر میں ایک فوٹو نمائش کی میزبانی کر رہا تھا۔ اس وقت میں نے بھی پرجوش اور پر اعتماد محسوس کیا تھا جب میرے خاندن والے اور دوست وہاں پہنچے تھے۔اور ییلو ڈیز میں نینا الونسو بھی ایسا ہی محسوس کرتی نظر آ رہی تھی جب اس کا خاندان میلہ میں پہنچا۔

میرا پسندیدہ حصہ رات کا کھانا تھا۔لیکن ورکشاپس کی طرف جاتے ہوئے ایک اہم جگہ بھی تھا، جو فوٹو اور سیلفیز لینے کے لئے بہت ہی مثالی تھی، کیونکہ اس جگہ کو رنگین پانی سے بھری ہوئی پلاسٹک کی بوتلوں سے سجایا گیا تھا۔ رنگوں کی بات کرنا، ییلو ڈیز کے نام کے بارے میں ایک دل چسپ حقیقت: پیلا رنگ خوشی، مثبتیت، تخلیقی صلاحیتوں، فنون لطیفہ کا رنگ سمجھا جاتا ہے۔بہت سی ثقافتوں میں یہ ایک مثبت رنگ ہے۔سورج کا رنگ ، زندگی کا رنگ۔ اسی وجہ سے منتظمین نے اس تہوار کے لئےاس نام کا انتخاب کیا ہے۔

میلہ تفریحی اور مزہ اور ساتھ ساتھ تعلیمی اور فنکارانہ بھی تھا۔یہ ایک حیرت انگیز تجربہ اور مختلف ثقافتوں کے بارے میں جاننے اور موسم گرما کے اختتام کو منانے کا ایک دلچسپ طریقہ تھا۔لیکن ییلو ڈیز تین روزہ فیسٹیول کے اختتام پر ختم نہیں ہوتا ہے۔ تین دن محض ایک مثال طور پر تھے کہ آپ لطف اندوز اور تخلیقی ہوتے ہوئے اپنے آپ پر کس طرح مثبت اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔

Photo by Migratory Birds Team

مرتضیٰ رحیمی

Add comment