میں کہتی ہوں: مدار۔ آپ کہتے ہیں: ماتیرا۔ وہ کہتی/کہتا ہے، مدر۔ وہ کہتے ہیں: ماما
میں کہتی ہوں پادر۔ آپ کہتے ہیں: پتیرا۔ وہ کہتی/کہتا ہے، فادر۔ وہ کہتے ہیں: پاپا
کیا یہ ممکن ہے کہ جو زبان ہم بولتے ہیں یا جو لہجہ ہم استعمال کرتے ہیں وہ ان کو والدین سے ذیادہ یا کم بنا سکتا ہے؟ کیا کوئی بھی لہجہ ان الفاظ کے جذبات کو بدل دیتا ہے؟ مجھے امید ہے کہ جواب نہیں ہے۔
جی، آپ نے اندازہ لگایا ہے، ہم کسی کی بھی مادری زبان کا حوالہ دے رہے ہیں۔وہ زبان جس کا انتخاب ہم نے خود نہیں کیا۔ ہم مادری زبان کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں اور یہ ہمارے خیالات اور جذبات کی زبان ہے۔ وہ زبان جو آپ کی ماں نے آپ سے بولی جب آپ انکے پیٹ میں تھے، وہی زبان جو وہ آپ کو آپ کے مستقبل کے بارے میں اپنے منصوبوں کو بتانے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ آپ کو اپنی مان کے اندر پیداaکیا گیا تھا اورروز آپ ان کی آواز ، ان کے گانے اور کہانیاں سناتے تھے جو وہ آپ کو سناتی تھیں، نیز وہ راز بھی جو صروف آپ دونوں نےآپس میں باٹےتھے۔ شاید اسی لئے وہ اسے مادری زبان کہتے ہیں، کیونکہ یہ وہ زبان ہے جو آپ کی ماں کے اندر کی دنیا میں آپ کے ساتھ بڑھتی ہے۔
اب آپ کسی دوسرے ملک میں آنے کا تصور کریں جہاں وہ آپ کی مادری زبان کی وجہ سے آپ پر ہنسیں۔ بہر حال، آپ وہی کریں جو آپ کرسکتے ہیں اپنی مادری زبان کو بھولیں نہیں۔ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ صرف چند تنگ نظری والے لوگوں کے طعنوں کی وجہ سے اپنے وطن کی بچی ہوئی چیز کو کھونے کے لیے تیار ہو جائیں۔
آئیے اپنا تعارف کروائیں۔ میں ایک ایسی لڑکی ہوں جو ایک غیر ملکی سرزمین میں پیدا ہوئی، جہاں میری جدوجہد شروع ہوتی ہے۔ میں اپنی مادری زبان کے بارے میں مستقل کہانیاں پڑھ رہی ہوں جس سے مجھے ان لوگوں کے خلاف اپنا دفاع کرنے کی طاقت ملتی ہے جو میری مادری زبان مجھ سے دورکرنا چاہتے ہیں۔ فرانسیسی ناول نگار ایلفونس داؤڈیٹ نے لکھا ہے کہ جو قوم اپنی مادری زبان کو بھول جاتی ہے وہ اس قیدی کی طرح ہوتی ہے جو اپنے سیل کی چابیاں کو کھو چکا ہوتا ہے۔
اس کو پڑھنے کے بعد میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ بیرون ملک میں رہنے کی زندگی کیسے ایک حد تک جیل کی زندگی سے مشابہت رکھتی ہے۔ اپنی مادری زبان بولیں، چابی سے محروم نہ ہوں، اور انہیں اپنے خیالات اور خوابوں کی زبان نہ لینے دیں۔
گھر میں مادری زبان بولنا اور گھر سے باہر اور سکول میں فارس زبان نے مجھے کم و بیش دو لسانی بنا دیا۔ میں نے ایرانی لہجے سے فارسی بولنے کی کوشش کی۔میں نے اتنی اچھی بولنا شورع کر دی کہ وہ یہ نہیں بتا سکے کہ میں ایک تارکین وطن ہوں۔ میں دو زبانوں کے ساتھ بڑا ہوئی، میں نے دو زبانیں سیکھیں، لیکن۔۔۔
میری کوششوں کے باوجود بھی، میں اس قابل نہ ہو سکی کہ کوئی کتاب پڑھ سکوں، اپنے جذبات بیان کرسکوں یا لوگوں سے اپنی مادری زبان میں بات کرسکوں۔ بیرون ملک میں رہ کر، مجھے دري زبان بولنے کا کونفیڈنس نہیں ہے۔ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب میں چھوٹی سی تھی، اور میں ایک نمبر کے تلفظ کے طریقے سے ہنس پڑی تھی۔میں نے “یک” کے بجائے “یاک” کہا، جس کا مطلب ہے ایک ہے۔میرے ہم جماعت ساتھیوں کی ہنسی’ان سب سالوں کے بعد بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ بہت سے تارکین وطن کا بھی یہی حال ہے۔ اس کے بعد سے، میں نے اپنی مادری زبان کو قید کردیا۔ میں اکثر اپنے اندر کی چھوٹی بچی سے اپنی مادری زبان میں بات کرتی تھی۔ہماری آپس میں بہت پیاری، انتہائی ناقابل فراموش گفتگو ہوتی تھی۔ کیوں؟ کیونکہ میں کسی تنقید کا نشانہ بنے بغیر، اپنی مادری زبان میں اس سے بات کرنے میں کامیاب رہی۔
اب سوچئے کہ اگر کوئی آپ کی مادری زبان کو نہ مانے۔ تو آپ کو کیسا لگے گا؟ جب بھی میں اس بارے میں سوچتی ہوں تو مجھےلگتا ہے کہ یہ آپنے سارے خواب اور یادیں کھونے کے مترادف ہے کیونکہ آپ کے دل و دماغ کی زبان خاموش ہو جاتی ہے۔
آئیں اپنی مادری زبان کا احترام کریں۔ میری کہنا ہے کہ، ہماری مادری زبان ہماری ماں کی میراث ہے۔اگر آپ زبان اور اس کے گرائمر کا مطالعہ نہیں کرتے تو، آپ اپنی تاریخ کو کبھی نہیں جان پائیں گے، اور اگر آپ اپنی تاریخ نہیں جانتے ہونگے تو، آپ کا مستقبل نہیں ہوگا۔ آئیے اپنے معاشرے میں مزید لوگوں کو مستقبل کے بغیر نہ رہنے دیں۔
زبانوں کے تحفظ اور تحفظ کی سمت طرف ایک قدم تب بڑھا تھا جب اقوام متحدہ اور یونیسکو نے 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا تھا۔ یونیسکو کی طرف پیغام دیا گیا تھا: جو بھی انسان اپنی مادری زبان نہیں بول سکتا اسے ان پڑه سمجھا جائے گا، بےشک اسے صرف پڑھنا، لکھنا بھی آتا ہو۔
Add comment