ہم کب تک اپنے بچوں کو اور خود کو کھانا کھلا سکیں گے؟

فروری 2019 کے اختتام پر، مہاجرین سے متعلق کچھ خبریں آئیں۔ یہ ہر اس شخص کے لئے بتدریج رہائش اور مالی امداد سے دستبرداری کے بارے میں تھی جس کی سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہوچکی تھی، اور اس کا آغاز اگست 2017 سے پہلے مہاجرین کے طور پر تسلیم شدہ تمام افراد سے کیے جانے کے بارے میں تھی۔

اس خبر پر متعدد رد عمل سامنے آئے۔ وہ لوگ جو ہیلینک کی وزارت ہجرت کی پالیسی کے فیصلے کے خلاف تھے انہوں نے غیر سرکاری تنظیموں کے ملازمین کے ساتھ مل کر ہڑتال کی کارروائی میں شامل ہوئے اور منگل 16 مارچ کو وسطی ایتھنز میں ایک احتجاجی مارچ کے ذريعے فیصلے سے دستبرداری کا مطالبہ کیا۔ 

پہلا سوال جو ہر پناہ گزین نے کیا “کیوں؟” بے دخل کرنے کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ کیا اس فیصلے کے پیچھے جزیروں سے پناہ گزینوں کی جگہ منتقل کرنا ہے؟ کیا اس فیصلے کی وجہ جزیروں سے پناہ گزینوں کو ادہر منتقل کرنا ہے؟ اگر ایسا ہے تو، پھر قانون سازوں کو اس چیز کا احساس کرنا ہوگا کہ انہوں نے غلط سڑک کا انتخاب کیا ہے۔ لوگوں کو جزیروں سے ایتھنس منتقل کرنے کے لئے پہلے مہاجرین کو اپکی رہائش سے باہر پھینک کر صرف ایک ہی چیز حاصل ہوگی، 2015 کی حالات کی واپسی، جب یونان اپنے شہر کے آس پاس گھومنے والے تمام لوگوں کو پناہ فراہم نہیں کرسکا۔ اس وقت تو یہ سب کسی حد تک قابل قبول تھا کیونکہ تمام یورپی ممالک مہاجرین کی لہر سے دوچار ہو رہے تھے۔لیکن چار سال گزرنے کے باوجود، ابھی بھی یونان رہائش گاہ پیش کرنے کے قابل کیوں نہیں ہوا؟ 

مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگ خود کو ایک بار پھر سڑکوں پر پائیں گے، کیونکہ یونان میں پناہگزی کی حیثیت پانے کے دو سال بعد، انہیں کبھی بھی بنیادی طور پر ملحق نہیں کیا گیا اور انہیں اپنے ذرائع پر انحصار کرنا پڑا۔ اگر مہاجرین کے لئے زبان کے اسباق ہوتے، اگر ان کی مہارت اور ان کی تمام کوششوں کو تسلیم کرلیا جاتا، اگر وہ کام تلاش کرنے کے اہل ہوتے تو میں بھی وزارت کے اس فیصلے کی حمایت کرتی۔ 

میں اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہوں کہ مہاجروں کو کسی بھی لمبے عرصے کے لیے کیمپوں میں نظربند نہیں کیا جانا چاہئے، بلکہ معاشرے کو انہیں قبول کرنا چاہئے۔البتہ، اب میں آہستہ آہستہ اس اعتقاد سے منہ موڑ رہی ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ یہاں ہمارے لئے کوئی نوکری دستیاب نہیں ہے، تو ہم کیسے ممکنہ طور پر کرایے پر کہیں رہ سکتے ہیں؟ مزید یہ کہ، ہم نے جو تھوڑی  سی یونانی سیکھی ہے وہ ہماری ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔

میں وزارتی فیصلے کے خلاف ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اگر ہمیں کسی ایسے ملک میں ملازمت اور رہنے کی جگہ نہ مل پائے گی جہاں بیروزگاری کی شرح 20 فیصد سے زیادہ ہے تو ہم وکٹوریہ یا پیدین تور ایریاس پارک یا شہر کے کسی چوک اختام پزیر ہوجائیں گے۔ہم کب تک اپنے بچوں اور خود کو کھانا کھلا سکیں گے؟ بہت سے لوگ جرم، جیسے ڈکیتی، یا جسم فروشی کی طرف رجوع کریں گے۔ اس سے ایک غیر مناصب ماحول پیدا ہوگا جس سے یونانی مجرم فائدہ اٹھائیں گے، کیوں کہ ان کے لیے تمام جرائم کا الزام غیر ملکیوں پر عائد کرنا آسان ہوگا۔ یونانی معاشرے پر منفی اثرت صرف منفی ہوسکتے ہیں۔

ایک اور سوال بھی ذہن میں آتا ہے: کیا یوروپی یونین اور ترکی کے مابین مارچ 2016 میں دستخط شدہ معاہدہ ابھی بھی ضابطہ کے مطابق ہے؟ معاہدے کے مطابق، ضروری کاغذات کے نہ ہونے کی صورت میں درخوست گزار کو یونان میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کا مقصد ترکی سے مہاجرین کے بہاؤ کو کم کرنا تھا ، جس سے یونانی حکومت کو ملک میں پہلے سے موجود تمام پناہگزین کے لئے رہائش فراہم کرنے اور معاشرے میں انضمام کا موقع فراہم کرنا تھا۔کیا معاہدے سے واقعتا مدد ملی؟ اگر ایسا ہے تو، پھر ہم پناہ گزینوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ کیوں محسوس کرہے ہیں؟ کیوں، چار سال بعد بھی مہاجرین کے لئے باقاعدہ تعلیمی پروگرام کا انتضام نہیں کیا گیا تاکہ ہم تیزی سے گھل مل سکیں؟

آج یونان میں پناہ گزینوں کے پاس بہت سی صلاحیتیں ہیں اور آپ اس پر بات بھی کر سکتے ہیں کہ اگر انہیں کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تو وہ یونانی معیشت کی بحالی میں حصہ ڈالیں سکتے ہیں۔ یقینا، اس کا انحصار حکومتی عہدیداروں اور سیاست دانوں پر ہے جو مہاجرین کے لئے صحیح حالات پیدا کریں، اور جلد بازی سے متعلقہ قوانین کو منظور نہ کریں جو ہمارے معاشرے اور مجموعی طور پر یورپ میں انتشار پیدا کردیں۔اگرچہ سیاست دانوں کا ماننا ہے کہ ریہائش گاہوں سے بے دخلی کوئی نیا اور اچانک فیصلہ نہیں ہے، بلکہ تدریجی عمل ہے، کیا انہیں پہلے ایسا کوئی فریم ورک نہیں رکھنا چاہئے تھا جس سے مہاجرین کو پیشہ ورانہ اور تعلیمی مواقع ملیں سکیں؟

*یہ مضمون “پناہ گزین پرندے” اخبار کے شمارہ نمبر 13 میں شائع ہوا ہے، جسے 25 مئی 2019 کو اخبار “افیمریدا تون سنتاکتن” (ایڈیٹرز کے اخبار) کے ساتھ ملحقہ کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔

Add comment