میں واپس ان قرنطین والے دنوں اور اسباق پر نظر ڈال رہی ہوں جو ہم نے کورونا وائرس سے سیکھے ہیں۔ہمارا مصروف شیڈول، جیسے اسکول، زبان کی کلاسیں، معاشرتی سرگرمیاں اور ملازمتیں، جو ہم میں سے بیشتر کے لئے رک گئیں تھیں۔شروع شروع کے دنوں کے میں تو یہ خوشگوار معلوم ہوا، لیکن غیر متوقع طور پر ہماری معاشرتی دوری ایک مسئلہ بن گئی۔
ہمارا گھر ہی ہمارے لیے پر اسائیش جگہ ہونی لگی تھی، لیکن جب ہم اپنی آزادی کا احساس کھو بیٹھے، تو ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہم کسی پنجرے میں تھے اور وہاں بد نظمی کا احساس تھا۔ ٹکنالوجی کا استعمال بڑھتا گیا اور یہی لوگوں کے لئے اہم ہوگیا، لیکن کنالوجی کبھی بھی آمنے سامنے مواصلات کی جگہ نہیں لے سکتی۔
ہم نے اپنے دوستوں سے آن لائن ملاقات کی، لیکن کال بند ہونے کے بعد پھر ہم دوبارہ اسی حالت میں تھے: بور، تنہا اور افسردہ۔ بات یہ نہیں کہ ٹکنالوجی نے مسائل پیدا کیے۔ فیس بک، ٹکٹوک یا انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا کا استعمال بہت اچھا ہے، لیکن ان کا حقیقی مواصلات جتنا اثر نہیں ہوسکتا، مل کر بات کرنے کی طرح۔
مثال کے طور پر ، تعلیمی ماحول میں، اپنے دوستوں کے ساتھ کلاس روم میں تعلیم حاصل کرنا، آن لائن تعلیم حاصل کرنے سے کتنا مختلف ہوتا ہے جس میں آپ کو اپنے سبق پر توجہ حاصل کرنے اور بہت کچھ سیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ جیسا کہ میرے ایک دوست نے مجھے بتایا، کہ اس نے ایسا کبہی نہیں سوچا تھا کہ اسکا ایک دن بھی سکول کا چھوٹ سکتا ہے، لیکن ہاں ،ایسا ہوا۔ ان دو چیزوں کا موازنہ کرتے ہوئے، ہم نے یہ سیکھا کہ صرف تعلیم ہی اتنیاہم نہیں ہے، بلکہ بات چیت بھی ضروری ہے۔
میں نے مثبت اسباق میں سے ایک سبق یہ سیکھا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی بہت فرق پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ میں نے اس لڑکے کی کمی محسوس کی جو اسکول جاتے ہوئے مجھے ہاتھ لہراتا یا زبان کی کلاس کے استاد لطیفوں کو بھی۔
میں پوری طرح سے اس ٹکنالوجی کی حمایت کرتی ہوں جو ہماری بہت مدد کرتی ہے۔ لیکن آزاد ہونے کے لیے ہر دن کی گنتی اور پہلے کی طرح عام طور پر باہر جانے کی خواہش نے مجھے سماجی ہونے کی اہمیت سکھادی ہے۔
Add comment