یہ ایک مختصر کہانی جو کہ Erasmus + پروگرام “اپنی زندگی کو تبدیل کریں، اپنا دماغ کھولیں” کے فریم ورک میں لکھی گئی تھی۔ تھیسالونیکی کے پہلے تجرباتی ایلیمینٹری اسکول – AUTH نے اسکول میں مہاجرین کی میزبانی کے بعد حصہ لیا۔
گھر ایک بے جان عمارت نہیں ہوتی، یہ محض ایک عام جگہ نہیں ہوتی۔ ہم سب کے لیے گھر تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ گھر فیملی، یادیں، دوست ہوتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں آپ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اور جہاں آپ اپنی زندگی کے پہلے سال گزارتے ہیں۔ گھر بہت معنی رکھتا ہے، آپ اسے آسانی سے نہیں چھوڑتے۔ لیکن اگر آپ اسے چھوڑتے ہیں، تو آپ اس وجہ سے نہیں چھوڑتے کہ آپ اسے چھوڑنا چاہتے ہیں ، بلکہ اس وجہ سے کہ آپ کو چھوڑنا پڑتا ہے۔
مجھے جنگ اور کچھ لوگوں کی وجہ سے اپنا گھر اور اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔ میرا گھر، میرا اسکول، میرا پڑوس، میرے دوست، کھوگئے ہیں، وہاں کچھ نہیں بچا۔ لیکن کچھ لوگ ہمارے گھروں کو کیوں تباہ کرنا چاہتے ہیں؟ کیوں انہوں نے ہمیں ہماری جگہ سے نکال دیا؟ کیوں ہم پر سکون زندگی نہیں گزار سکتے؟
یہ کل کی ہی بات لگتی ہے جب ہمارے پڑوس میں پہلا بم گرا تھا۔ اس وقت گرمیوں کا موسم تھا اور بچے پارکوں میں کھیل رہے تھے۔ اچانک سے ہی سائرنز کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور کچھ ہی لمحوں میں آسمان چھوٹے چھوٹے ہوائی جہازوں بھر گیا جو سیاہ نقطوں کی طرح نظر آنی والی کچھ چیزیں پھینک رہے۔ ہم فورا بھاگے اور ایک تہ خانے میں چلے گئے۔ ہر طر شور کی آوازیں سنائی دینے لگیں، لوگ خوف و ہراس میں دوڑ رہے تھے، بچے رو رہے تھے۔ ہم رات ہونے تک تہہ خانے میں رہے۔ پھر ہم گھر گئے اور ٹی وی آن کیا۔ تو پتا چلا کہ جنگ شروع ہوچکی ہے۔
اگلے دن ہم صبح سویرے اٹھے، اپنی چیزیں پیک کیں اور دوسری فیملیوں کے ساتھ سمندر کی طرف چل پڑے۔ وہاں ہم نے یونان کے لیے کشتی پر سوار ہوتے۔ ہم ایک شہر سے دوسرے شہر پیدل چلے۔ راستے میں دوسری فیملیاں بھی ہمارے ساتھ شامل ہوئی۔ ایک دن ہم سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن کشتی میں سوار ہونے کے لئے ہمیں پیسوں کی ضرورت تھی۔ میری فیملی کے پاس رقم مجود تھی، لہذا ہم کشتی میں سوار ہوکر سفر کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن دوسری فیملیاں ہمارے ساتھ کشتی میں نہیں آئیں اور اس کے بعد سے میں نے انہیں نہیں دیکھا۔
ہم نے کشتی بہت دن گزارے، یہ بھری ہوئی تھی اور سردی بھی بہت تھی۔ کچھ دن بعد ہم یونان پہنچے۔ وہاں، میں نے مسٹر دیمتریس اور مسز میروپی یا میری سے ملاقات کی۔ مسٹر دیمیتریس ایک بیکر ہیں اور وہ بہترین روٹی بناتے ہیں۔ مسز مریم ایک درزی ہیں اور وہ بہت عمدہ کپڑے سلائی کرتی ہیں۔ مسٹر دیمتریز اور مسز مریم نے اس وقت تک ہماری مدد کی جب تک کہ ہمیں اپنا مکان نہ ملا۔
تاہم ، کچھ بھی ویسا نہ تھا۔ یہاں سب مختلف انداز میں بولتے، پہنتے اور کھاتے ہیں۔ پر مجھے بالکل بھی برا نہیں لگا، کیونکہ میرا ایک مقصد ہے کہ میں نئی یادیں بناؤں، نئے دوست ڈھونڈوں۔ چھوڑ دو، جیسا کہ سب لوگ مختلف ہیں، میں منفرد ہوں!
Add comment