افغانستان کے وزیر برائے مہاجرین اور وطن واپسی، نور رحمن اخلقی کی ایک تقریر کے مطابق، تقریبا 65 لاکھ بے گھر افغان ملک سے باہر آباد ہیں۔ ان میں سے 25 لاکھ افراد قانونی طور پر منتقل ہوچکے ہیں، جبکہ باقی غیر قانونی طور پر ہمسایہ ممالک یا دور دراز کے ممالک میں رہ رہے ہیں۔ یہ واضع ہے کہ وہ پرامن زندگی کے خواہش مند ہیں، جوکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ تمام افغان باشندے، سب سے زیادہ کمزور، نہ صرف جنگ کی وجہ سے ہوئے ہیں بلکہ بہت ساری دیگر وجوہات کی بناء پر افغان مہاجرین بنے ہیں۔ افغانستان کے وزیر خارجہ چاہتے ہیں کہ سب پناہ گزین وطن واپس آجائیں اور وہ اسے چیز کو حاصل کرنے کے کی بہت کوشش کر رہے ہیں۔ بے شک، اس نے پناہ گزینوں کو واپس جانے کی اجازت دینے سے پہلے کچھ شرائط رکھی ہیں: ان کے پاس تعلیم اور تربیت ہونی چاہئے، کسی طرح کی مہارت پیش کرنے کے قابل ہونے چاہئیں، انہکے پاس نوکری اور رہنے کی جگہ ہونی چاہئے۔ آخر میں، انہیں افغانستان کے امن و استحکام کے لیے خطرہ یا تخریب کاری کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔
ہم سب نے اسکولوں اور یونیورسٹیوں پر حالیہ مہلک حملوں کو دیکھا ہے جنہوں نے ہمارے بہت سے ہم وطنوں کی جانیں لی ہیں۔ جیساکہ ان حالات کی وجہ سے ہم واپس نہیں جا سکتے ہیں۔ ہم بین الاقوامی برادری اور یوروپی یونین سے کہتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کے لئے وہ سب کریں جو کچھ وہ کرسکتے ہیں۔ افغان تارکین وطن کے لئے یورپ ان کی پہلی پسندیدہ منزل ہے۔
جب یورپی باشندے افغان لوگوں کو واپس بھیجنے یا ملک بدر کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو ہم ان سے یہ کہیں گے کہ وہ زبردستی ایسا نہ کریں۔
بچوں، جوان افراد، اور ہمارے پیارے والدینوں کو اپنے ملک سے منزل تک کے سفر تک بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ -ہم نے اپنے گھر اور سب کچھ کھو دیا ہے اور ان کو واپس لانا ناممکن ہے۔ ہم اتنی مشکلات سے گزر چکے ہیں کہ ہمارے جسموں میں مزید بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں ہے۔ ہم یورپی رہنماؤں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی انسانی مدد جاری رکھیں اور ہماری مدد کے لئے وہ ہر ممکن تعاون کریں۔
افغان تارکین وطن اور مہاجرین بنیادی طور پر پاکستان، ایران، ترکی، انڈونیشیا اور یونان میں پائے جاتے ہیں۔
میں خود ایک افغان مہاجر ہوں۔ جیسے جیسے معاملات کھڑے ہیں ، میں واپس گھر نہیں جاسکتا۔
Add comment