Photo by Greek Paraolympic Commmittee

گر آپ کے پاس ہمت ہے تو۔۔۔ [حصہ 1]

اکثر، عام کھلاڑیوں کی کامیابیوں پر دھیان نہیں دیا جاتا، لیکن دنیا میں کچھ ایسے کھلاڑی بھی ہیں جو بہت ہی خاص ہیں۔ ہمت ہارنے کی بجائے، انہوں نے عزم اور ہمت کے ساتھ رہنا سیکھا۔ ان میں سے بہت سے کئی قسموں کے کھیلوں میں شامل ہیں۔یہ وہ کھلاڑی ہیں جو ہمارے ذہن میں تھے جب ہم نے پیرالمپکس کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک پروگرام میں شرکت کا فیصلہ کیا اور یونان میں رہنے والے ان مہاجر کھلاڑیوں سے بات کی: ہم نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور پوچھا کہ انکو کونسی چیز محرک کرتی ہے۔

ابراہیم الحسین کا تعلق شام سے ہے۔ وہ پچھلے کچھ سالوں سے یونان میں مقیم ہیں اور وہ تیراکی اور وہیل چیئر باسکٹ بال کھیلتے ہیں۔ جب ہم نے ان سے بات کی تو ہم نے ان کے بارے میں بہت ساری دلچسپ باتیں جانیں کہ وہ اب تک کن چیزوں سے گزرے رہے ہیں اور وہ کس حد تک جانا چاہتا ہیں۔

ابراہیم، آپ کو کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

بہت ساری کا۔ میں کچھ کے بارے میں بات کرسکتا ہوں، لیکن کچھ کے بارے میں نہیں۔ میں ان کو بھلانے کی کوشش کرتا ہوں جو ماضی کے المناک واقعات سے متعلق ہیں۔ ایتھلیٹکس میں شمولیت میں نے پہلی بار بچپن میں اختیار کی۔ مجھے بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، سب سے زیادہ اس وقت جب میں نے اپنی دونوں ٹانگیں کھو دیں، میری دائیں ٹانگ اور بائیں طرف کی ٹانگ کا جوڑ۔ میں 2014 میں یونان آیا اور کچھ یونانیوں نے میری تھراپی میں مدد کی، لہذا 2016 میں میں نے دوبارہ کھیلوں کا آغاز کیا اور کچھ مقابلوں میں حصہ لیا۔

کھیلوں نے آپ کو اپنی چوٹوں پر قابو پانے میں کس طرح مدد کی؟

کھیلوں کی وجہ سے، میں خود کو معذور نہیں سمجھتا ہوں۔ میں جسمانی معذوری کو ایک کیفیت نہیں سمجھتا، جسمانی معذور جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی معذوری صرف نفسیاتی ہوتی ہے۔

کیا آپ ریو میں 2016 میں ہونے والے پیرا اولمپک گیمز کے تجربات کے کچھ لمحات ہمارے ساتھ شیئر کرسکتے ہیں؟

ریو گیمز میں میری شرکت میری زندگی کے بہترین اوقات میں شامل ہے اور اس نے میرے لیے نیا راستہ کھول دیا۔

آپ تیراکی اور باسکٹ بال کو آپس میں کیسے جوڑتے ہیں؟ کیا یہ مشکل نہیں ہے؟

یہ مشکل ہے، لیکن اگر آپ میں ہمت ہو، تو آپ اپنے سامنے آنے والی ہر دیوار کو عبور کردیتے ہیں۔ ٹریننگ اتنی مشکل نہیں ہے، اپنی ٹریننگ کے بعد گھر جانا اور گھر جا کر اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھنا مشکل ہے۔

آپ کے مستقبل کے مقاصد کیا ہیں؟

میں یہ سوچ رہا ہوں کہ میں جو کرنا چاہتا ہوں وہ سب کو یہ پیغام بھیج رہا ہوں کہ بے شک ہم مہاجرین ہیں اور دیگر مسائل سے دوچار ہیں لیکن بھر بھی ہم اپنے خوابوں کو سچ کر سکتے ہیں۔ میرا مقصد 2020 کے ٹوکیو پیرا اولمپکس میں میڈل جیتنا ہے۔ لیکن، جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا  ہے کہ، میرا دوسرا مقصد دوسرے معذور افراد کو پیغام دینا ہے اور انہیں بتانا ہے کہ اس زندگی میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ اگر آپ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو، آپ کر سکتے ہیں۔

آپ کے اب تک کے سب سے بڑے اعزاز کا تجربہ کونسا تھا؟ 

وہ تھا جب میں نے اولمپک ٹارچ اٹھایا تھا۔ 2016 میں میں ایلیونس پناہ گزین کیمپ سے روانہ ہوا تھا، اور اسے لے جانے والا پہلا شخص میں تھا۔ دوسرا 2016 میں تھا ، جب یو ایس اسپورٹس اکیڈمی نے مجھے دنیا میں سب سے زیادہ ہمت رکھنے والے آل راؤنڈر کھلاڑی کا انعام دیا۔ 

یہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ یونانی پیرا اولمپک کمیٹی نے آپ کو کیسے ڈھونڈ؟ یا آپ نے انہیں ڈھونڈ؟

مجھے اس کمیٹی کے بارے میں ایلیاناس کیمپ سے اولمپک ٹارچ لے کر جانے کے بعد معلوم ہوا۔ میں یونان کا پہلا معذور مہاجر تھا جس نے پیرا اولمپک کی کھیلوں میں حصہ لیا تھا۔

بہت بہت شکریہ!

اور میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ 2020 میں آپ کو ٹوکیو میں بطور صحافی دیکھوں۔

بلکل. ہم آپ کی حمایت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ یہ مت بھولنا کہ آپ کے ہر جگہ حمایتی ہیں۔ 

آپ نے جو کچھ ابھی کہا وہ میرے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ کامیابی کی راہیں ہمیشہ مشکلات سے بھری ہوتی ہیں، اور ان پر قابو پانے کے لئے آپ صرف ان کو عبور کر سکتے ہیں۔

اویسام سمیع کا تعلق موصل، عراق سے ہے، جسے انہوں نے 2014 میں چھوڑا تھا۔انہوں نے دو سال ترکی میں گزارے اور اب وہ یونان میں ہیں جہاں وہیل چیئر پر فینسنگ کرتے ہیں۔

اویسام، کیا آپ ہمیں اپنی کامیابیوں اور مقابلوں میں اپنی شرکت کے بارے میں بتاسکتے ہیں؟

میں آپ کو اپنی کامیابیوں کے بارے میں نہیں بتا سکتا کیونکہ میرے پاس ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ہے، لیکن میں آپ کو اپنی شرکت کے بارے میں ضرور باتا سکتا ہوں۔ میں مقابلوں میں حصہ لینے سے قاصر ہوں کیونکہ میں اپنی سیاسی پناہ کی درخواست قبول ہونے اور اپنے سرکاری کاغذات کا منتظر ہوں۔تاہم ، میں نے ایتھنز میں ہونے والے مقامی پروگراموں میں حصہ لیا ہے اور اس سے میں مستقبل میں مزید مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے محرک ہوا۔

آپ کی معذوری سے آپ کی روزمرہ کی زندگی کس طرح متاثر ہوتی ہے؟

مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں پیشہ کے لحاظ سے ایک فوٹو گرافر ہوں، جس کے لئے زیادہ جسمانی مشقت کی ضرورت نہیں ہوتی اور مجموعی طور پر میری معذوری بہت معمولی ہے۔ اس سے مجھے چلنے یا آزادانہ طور پر حرکت کرنے میں روکاوٹ محسوس نہیں ہوتی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس کا علاج مستقبل میں کیا جاسکتا ہے اور اس نے مجھے معاشرتی یا عملی طور پر کسی بنیادی طرح سے متاثر نہیں کیا۔

آپ کا خاص کھیل کونسا ہے اور آپ نے اس کا آغاز کیسے کیا؟

میں وہیل چیئر فینسنگ کرتا ہوں۔ سولیڈارٹی نآؤ، تنظیم جو میرے کیس کو دیکھ رہی ہے، انہوں نے مجھے تجویز دی کہ مجھے مختلف پیرا اولمپک کھیلوں کی کوشش کرنی چاہئے۔ آخرکار، تقریبا ایک سال پہلے، میں نے وہیل چیئر فینسنگ کا انتخاب کیا۔

آپ کا مقصد کیا ہے؟

کامیابی کی امید رکھنے والے ہر انسان کی طرح، میں بھی ایک اچھی سطح پر پہنچنا چاہتا ہوں، زیادہ سے زیادہ مقابلوں میں حصہ لینا اور میڈل جیتنا چاہتا ہوں جس سے میرے ملک کا نام روشن ہوگا اور مجھے انتہائی خوشی ملے گی۔  

آپ یونان میں رہنے والے معذور پناہ گزینوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟ 

میرا پیغام ان تمام ہمت رکھنے والے مہاجرین کے لئے ہے-میں معذور نہیں کہوں گا-مطلب اپنے آپ کو آزاد محسوس کریں اور اپنی راہ میں کسی کو رکاوٹ نہ بننے دیں۔ان سب کی ایک عمدہ مثال وہ کھلاڑی ابراہیم الحسین ہیں جنہوں نے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا ہے۔ ابراہیم بھی یہاں بطور مہاجر آیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کریں اور پیرا اولمپک کھیلوں میں حصہ لیں۔ آپ کو ان بانڈز کو توڑنا ہوگا جو آپ کو منفی انداز میں متاثر کرتے ہیں۔ معذور افراد کو کچھ لوگ ناپسندیدہ سمجھتے ہیں جو اس چیز پر یعقن رکھتے ہیں کہ معذور افراد کے پاس معاشرے کو دینے کے لئے کوئی مثبت چیز نہیں ہے۔ اسی لئے میں ان کو مشورہ دیتا ہوں کہ معذوری کو اپنی رکاوٹ نہ بننے دیں، جسے میں ویسے بھی نہیں مانتا، کیونکہ میں صرف ہمت کو مانتا ہوں۔ 

کس طرح سے پیرا اولمپک کھیلوں نے آپ کو متاثر کیا؟

یہ نکلنے کا ذریعہ تھا، کچھ ایسا جسے میں نے مہاجر کی حیثیت سے اپنے روز مرہ کے معمولات سے دور ہونے کے لئے استعمال کیا ۔پیرا اولمپک کھیلوں سے انضمام اور ملحق میں مدد ملتی ہے، ان سے کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کے ذریعہ آپ کو نئے لوگوں سے بھی ملنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں سب کچھ بدل گیا تھا۔ صفر سے لے کر اب تک۔ 

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، کہ کس طرح سے پیرا اولمپک ایتھلیٹ اپنی ٹیموں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ واقعات میں حصہ لے کر وہ ہمیں ایک اہم سبق سکھاتے ہیں: یہ بھی کہ ہم میں سے بغیر معذوری والے افراد کو بھی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اپنی پوری کوشش کرنی چاہئے اور ہمیں پیرالمپکس میں حصہ لینے والے تمام افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔

Photo by Greek Paralympic Commmittee

نورا ال فضلی

عبدالرحمن مدالا

مرتضیٰ رحیمی

Add comment