Photo by Elias Sharifi

انتظار کرنے والوں کے لئے ایک گھر۔

 ایک بار پھر، ہم میں سے بہت سے لوگوں نے یونان کے آس پاس پناہ گزینوں کے استقبالیہ مراکز میں سے کسی ایک میں رہائشیوں کی حیثیت سے یہ سال بھی گزارا ہے۔ یہ ہم میں سے ان لوگوں کے لئے ایک عارضی رہائش پیش کش ہے، جو کسی دوسرے ملک جانے کے منتظر ہیں۔ بہت سے لوگ مغربی یورپ جانے کے قانونی اور غیر قانونی دونوں طریقوں کی تلاش میں رہتے ہیں، لیکن اس دوران کیمپ میں روز مرہ کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟ کیسا ہوتا ہے یونان میں رہنا، بہتر کل کا انتظار کرنا؟

کیمپ میں رہنے کے لیے آپ کو بہت صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم یونان میں آباد نہیں ہوسکتے کیونکہ یہاں مہاجرین کے لیے کوئی لئحه عمل نہیں ہے، لہذا ہمیں کسی دوسرے ملک کی طرف جانا پڑے گا۔ ہم اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی محسوس کرتے ہیں۔ اس مضمون میں، پناہ گزینوں نے اپنے الفاظ میں، اس ضبر کی وضاحت کی ہے جو انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔

مسٹر سریفی 44 سال کی عمر 

میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ملاکاسا کے کیمپ میں رہتا تھا، لیکن ابھی کچھ عرصے کے لیے میں وہاں اکیلا رہ رہا ہوں، جرمنی میں اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ ملاپ کے انتظار میں ہوں۔ میں ان کے ساتھ دوبادہ ملاپ کے کسی بھی راستہ کا منتظر ہوں۔ ملاکاسا کیمپ میں صبر رکھنا آسان نہیں ہے۔ یہاںسکیورٹی نہیں ہے، بلکل بھی نہیں، یہاں تک کہ گیٹ پر بھی نہیں۔ کوئی بھی بغیر اجازت کے اندر  آسکتا ہے۔ ساری پریشانیاں اور ٹینشنیں معاملات کو مزید خراب کردیتی ہیں۔اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو، میرے خاندان کے ساتھ ملاپ کی درخواست کافی دیر سے تاخیر  کا شکار ہے۔ میں نے حال ہی میں بہت صبر کا مظاہرہ کیا ہے اور میں کیمپ میں لوگوں کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ وہ آپس میں تلخ کلامی نہ کریں۔ مجھے کیمپ میں “سفید داڑھی” کے نام سے، دانشمند شخص کے طور پر جانا جاتا ہے۔

Z کی عمر 17 سال 

میں پچھلے دو سالوں سے تھیوا کیمپ میں رہ رہی ہوں۔ میں افغانستان سے آئی ہوں۔ میں صبر سے یہاں اپنے نامعلوم مستقبل کا انتظار کر رہی ہوں۔ میں اصل میں اپنے بھائی کے ساتھ دوبارہ ملنا چاہتی تھی، لیکن ہماری درخواست ہماری اپنی ہی بن کی رہ گئی۔ ہم یونان میں قیام اور پناہ کی درخواست جمع کروانے کے پابند ہوگئے۔ ہم ابھی بھی پاسپورٹ کے اجراء کے منتظر ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہمیں مہینوں انتظار کرنا پڑے گا اگر نہیں تو سالوں۔ میں اسکول، ورزش، فٹ بال اور پینٹنگ میں مصروف رہنے کی کوشش کرتی ہوں، اس انتظار کے ختم ہونے تک۔صبر کرنا آسان نہیں ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تھیوا کیمپ میں خاندانوں کے ساتھ ساتھ اکیلے نوعمر نوجوان بھی رہتے ہیں، اور اس سے تناؤ پیدا ہوتا ہے۔ پولیس بھی ہمیں نظرانداز کرتی ہے۔اس وجہ سے خواتین اور لڑکیوں کے لئے صبر کرنا اور بھی مشکل ہے۔ کیمپوں میں رہنے والوں کے لئے میرا پیغام ہے کہ وہ ان کاموں کو کریں جو ان کے لئے اچھے ہوں، جیسے اسکول جانا اور اپنے اسباق پر توجہ دینا۔ انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے اور  اس امید کے ساتھ زندگی گزارنی چاہئے کہ وہ آخر کار اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے، اور انہیں زیادہ دیر صبر رکھنے ضرورت نہیں ہوگی۔

جعفر علی

میں سشتو کیمپ میں رہتا ہوں، جو پیریاس اور ایتھنز کے قریب ہے۔ میں ڈیڑھ سال پہلے یونان آیا تھا اور اب میں اس کیمپ میں رہ رہا ہوں۔ صرف میرے جیسے اکیلے نابالغ افراد ہی نہیں، بلکہ تمام پناہگزین یونان چھوڑ کر کسی دوسرے یورپی ملک جانے کے منتظر ہیں۔ ہر ایک کا ماننا ہے کہ کیمپ انتظار کرنے والوں کے لئے ایک عارضی گھر ہے اور ایک دن وہ اسے چھوڑ کر جانے کے قابل ہوجائیں گے۔کیمپ میں زندگی سب کے لئے مشکل ہے اور میں آپ کو یقینی طور پر کہ سکتا ہوں کہ ہم سب اس صورتحال کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔ میں انگریزی اور یونانی کلاسوں میں جاتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ میری دونوں زبانوں میں بہتری آئے گی۔ میں اصل میں ایک یونانی اسکول میں داخل ہواتھا، لیکن مجھے اتنی زبان نہیں آتی تھی، تو لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ پہلے میں یونانی زبان سیکھوں گا پھر کسی مناسب اسکول میں داخلہ لوں گا۔ میرا پیغام تمام مہاجرین کو یہ ہے کہ وہ صبر  رکھیں اور اپنی کوشش کو جاری رکھیں۔ انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے، زیادہ سے زیادہ سیکھنے اور کامیاب ہونے کے لیے بہادر بننا چاہئے۔مجھے امید ہے کہ وہ سمجھ گئے ہوں گے۔

محمد شریف رحماني

محمد نسیم حیدری

Add comment