Photo by Migratory Birds Team

صبر اور ثابت قدمی۔ 

انکاری کی زندگی، لیکن پھر آپ بھی لڑائی جاری رکھتے ہیں۔ یہ مجھ پر بھی لاگو ہوتا ہے، لیکن میں اکیلی نہیں تھی، میرے ساتھ میری والدہ اور میرے دوستوں کی انمول حمایت حاصل تھی۔ پچلے جون، میں موسیقار کے اسکول کے لئے داخلہ امتحان کی تیاری کر رہی تھی۔ کامیابی کا مطلب اپنے مقامی سکول نہ جانے کا ہو سکتا ہے۔ میں واقعی مکمل کرنا چاہتی تھی۔ میں پورا دن اپنے استاد کے ساتھ مشقیں کرتی تھی، اور میں تهکی هوی گھر آتی اپنا گھر کا کام کرنے کے لیے۔ دن گزرتے گئے اور امتحان نزدیک آگئے، میں بہت زیادہ فکر مند ہونے لگی۔ روز کا معمول، فکر اور میرا  دماغ سبھی مجھے تھکا کر رہے تھے۔ مجھے یاد ہے امتحان سے ایک دن پہلے بیمار ہوجانا اور بستر میں رہنا، سوجانا۔ میں اگلی صبح اٹھی پریشانی سے بھری ہوئی۔ میں نے کپڑے پہنے اور اپنی امی کے ساتھ امتحان کے مرکز گئی۔ میں نے سوچا تھا کہ میں امتحان کے لیے مکمل طور پر تیار تھی، لیکن میں نہیں تھی۔ میرے استاد اور کچھ دوست بھی وہاں پہلے سے موجود تھے جو امتحان بیٹھے تھے وہ وہاں ہمارہ انتظار کررہے تھے۔ سب سے پہلا تحریری امتحان تھا، وہ آسان تھا۔ پھر مشکل حصہ آیا – جو عملی تھا۔ جس میں ہمیں امتحان لینے والوں کے سامنے گانا پڑا پھر سلافن پر دھن بجانی پڑی۔ میں نے اچھا نہیں گایا تھا، تو جب میں ہال سے باہر آئی، میں نے روانا شروع کر دیا۔ میں جانتی تھی کہ میں پاس نہیں ہوں گی اور میں صحیح تھی۔  تین دن بعد نتیجہ آیا۔ میں فیل ہوگئی۔ جیسے ہی میں نے سنا، تو میں آنسوں سے پھٹ گئی اور ناقابل یقین تھی۔ کیوں؟ میں نے کیوں نہیں پاس ہوئی؟ مجھے بهیانک محسوس ہوا۔ میں رات بھر روتی رہی اور سوچتی رہی۔ میں اس مرحلے تک پہنچ گئی تھی کہ میں اپنے آپ کو بالکنی سے باہر پھینک دینا چاہتی تھی، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ میں نامنظوری برداشت نہیں کر سکی۔ ایک ہفتہ گزرا اور میری ماں میرے پاس آئی اور  کہا کہ یہ سب بند کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مجھے ایک فروغ دینے کے لئے ایک پارٹی منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اسے “نامنظور پارٹی” کا نام دیا۔ یہ شام کو ہونی تھی۔ تقریبا 20 افراد آئے اور میں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر سکی۔ میرے تمام دوست میری حمایت کے لیے میرے پاس آئے۔ پارٹی رات دیر تک چلی اور اگلی صبح میں خوشگوار اٹهی۔ میں نے واقعی بہتر محسوس کیا، جو میں نے تقریبا ایک ماہ تک نہیں کیا تھا۔ دو مہینے گزر گئے اور 28 ویں اگست کی شام کو، میرے استاد نے ہمیں نئے موسیقاری سکول کے بارے میں بتانے کے لیے ٹیلی فون کیا  اور کہا کہ ایک نیا موسیقار سکول ابھی کھولا ہے۔ جیسے ہی میں نے یہ سنا، تو میں نے خوشی سے کودنا شروع کر دیا۔ 9 ستمبر کو، میں امتحانات بیٹھی اور پاس ہوگئی۔ مجھے اچھے لوگوں کے ساتھ اچھا اسکول مل گیا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اتنی آسانی سے ہار نہیں ماننی چاہئے۔ ہمیں آگے بڑھنا چاہئے بیشک اگر ہم جانتے ہیں کہ کچھ لوگ ہمیں نہیں چاہتے، کیونکہ وہاں ہمیشہ دوسرے ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمارے سے محبت کرتے ہیں اور ہماری پرواہ کرتے ہیں۔

دیمترا کائسیدی

Add comment