بہت سے لوگوں کا سوال ہوگا، کیوں بہت سے افغان لوگ جو ایران میں کئی سال تک رہے اور اس کے بعد، ایران سے یورپ کی جانب منتقل ہو رہے ہیں۔ دنیا ایران کو ایک محفوظ ملک قرار دیتا ہے اور یہ سچ ہے لیکن افغانوں کے لئے نہیں۔ یران میں جنگ نہیں ہے لیکن جو لوگ وہاں رہتے ہیں وہ نظریاتی جنگ کے ذریعے ایک نفسیاتی جنگ کا سامنا کرہے ہیں۔ میں ایران
میں وہیں پیدا ھوی اور بڑی ھوی تھی لیکن لیکن پھر بھی وہ مجھے “افغان” ہی کہتے تھے۔ جب میں اپنے ملک میں جاتی ہوں تو مجھے “ایرانی” کہتے ہیں، کیونکہ میں افغانیوں کی طرح نہیں دکھتی۔ میں دونوں ملکوں میں ایک اجنبی ہوں اور مجھے اس حقیقت سے نفرت تھی کہ میرے ساتھ اس طرح سلوک ہو رہا تھا کہ جیسے میری کوی شناخت ہی نہیں ہے۔ یہ ذہنی پریشانی ہے جہاں آپ کسی کو بتا نہیں سکتے کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے۔ میں ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھتی ہوں، یہ کس کی غلطی ہے کہ میری کوئی شناخت نہیں ہے؟ کون ذمہ دار ہے؟ کیا یہ میرے والدین؟ کیا ایران کی سیاست؟ مجھ نہیں پتہ۔
مجھے اپنی ماں کے لئے بہت افسوس ہے۔ وہ افغانستان میں پیدا ہوئ اور وہ ایران میں بڑھی ہوی اور اب اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے انہیں باقی کی ذندگی یورپ میں خرچ کرنی پڑے گی۔
میری ماں نے نقل مکانی کا تجربہ کیا ہے۔ جب وہ 17 سال کی تھیں تو وہ اپنے وطن چھوڑ کر دوسرے ملک میں منتقل مکانی ہوگئے۔ جب 1980 میں سابق سوویت یونین کی فوج نے افغانستان پر حملہ کیا، میری والدہ اپنے خاندان کی پابند رہی جس کے بعد انہوں نے ایران میں پناہ لی۔ ان کے پاس اپنی بچپن کی یادیں رکھنے کے لۓ کچھ بھی نہ تھا اور وہ اپنے وطن سے دور ہو گئی، اپنے دوستوں سے، اپنے اسکول سے اور اپنے والدین سے کئی سالوں سے۔ اس نے اپنی ساری زندگی ایران میں گزاری لیکن اس کو دستاویزات کبھی نہیں مل سکے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران اس کا گھر
کبھی نہیں بن سکتا۔ وہ مسلسل ايران سے جلاوطن ہونے کے خوف میں رہتے تھے۔
ہم نے ایران میں پرسکون اور آرام دہ زندگی گزاری لیکن امن نہیں تھا۔ ہم خوف اور تشویش سے ہم حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ایران میں افغان بچوں کو سکول میں داخل کروانا بہت مشکل تھا۔ ہر سال ہمیں ایران کی وزارت تعلیم کے طویل عمل سے گزرنا پڑتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد کے لئے سال کا سب سے مشکل وقت ہوتا، جب اسے کئی بار وزارت جانا پڑتا اور گھنٹوں تک قطار میں کھڑا ہونا پڑتا تھا، جیسا کہ حکام کہتے تھے کہ:”ہمیں اب تک اس سال افغان بچوں کو رجسٹر کرنے کی اجازت نہیں ملی، لہذا آپ کو ایک بار پھر صبر کرنا پڑے گا” اور یہی چیز ہر سال ہوتی۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ اس سال بھی ہم اسکول جائیں گے یا نہیں۔ تصور کریں کہ سکول کے بچے کے لئے ہر ایک سال ایک ماہ تک اس کے اسکول کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کی حالت میں ہو۔ تصور کریں کہ ایک اسکول کا بچہ تقریبن ایک سال ایک ماہ اس کے اسکول کے بارے میں غیر یقینی صورتحال میں ہو۔ اس کے علاوہ، افغان بچوں کو اسکول میں داخل کرانے کے لۓ بہت زیادہ پیسے لگتے ہیں۔ بہت سے بچے مالی مشکلات کی وجہ سے اسکول نہیں جا پاتے۔ اس کے علاوہ افغان ہونے کی وجہ سے ہم ہائی اسکول کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں کرسکتے تھے۔ نہ ہی ہمیں تعلیمی اور کھلاڑیوں کے اولمپیوڈس میں حصہ لینے کی اجازت ملتی تھی۔ اگر ہم ایران کے اندر سفر کرنا چاہتے ہوں تو، ہمیں صرف 10 دن کی توثیق کے ساتھ خصوصی اجازت کی ضرورت پڑتی، اور بعض شہروں میں تو افغانوں کے لئے جانا منع تھا۔ صبر سب سے زیادہ مفید سبق تھا جو ایک افغان ماں اپنے پناہ گزین بچوں کو سکھا سکتی تھی۔ کبھی کبھی ہماری ایرانی اسکول کے طالب علموں کے ساتھ بحث ہوتی جس میں ہمیں وہ کہتے:”تم افغان ہو، جاؤ واپس آپنے ملک میں”۔ اور ہم روتے تھے، اپنی ماں کے پاس جاتے اور اس سے پوچھتے، “ہم یہاں کیوں ہیں؟ ہمارے پاس اپنا ملک نہیں ہے جانے کو؟”. اور میری ماں نے آنسوؤں سے بھری ہوی آنکھوں سے جواب دیا، لیکن ہم لیکن ہم اس کا جواب نہیں سمجھ سکے۔
جب ہم بڑے ہوے، ہماری ماں نے ہمیں ایک مشورہ دیا: “اپنے دوستوں کے اچھے الفاظ کو اپنے دل سے قبول کرو، ان کے برے الفاظ یا طنز کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرو، اور انہیں معاف کردو۔” جیسے ہی وقت گزرتا گیا، انہوں نے ہمیں سکھایا کہ نہ صرف ہم ایران میں مہمان ہیں بلکہ بن بلائے مہمان ہیں۔ ایران میں افغان پناہ گزینوں کو گھر یا گاڑی خریدنے کی اجازت نہیں تھی۔ افغانوں کے لئے یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے نام سے سستا سم کارڈ خرید سکیں۔ ہمیں سم کارڈ خریدنے ایک ایرانی واقف کار کی کی ضرورت پڑتی اور اکثر اوقات وہ انکار کر دیتے کیونکہ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ انہیں اپنے افغان دوستوں کی حمایت نہیں کرنی چاہئے۔ افغان ایران میں سب سے مشکل ملازمتیں کرتے تھے لیکن تمام ذرائع ابلاغ نے ملک میں بے روزگاری کی بلند شرح کے لئے افغان پر الزام عائد کیا۔ انہوں نے ملک کی ہر ایک سماجی اور اقتصادی مسئلہ کا الزام افغان پناہ گزینوں پر لگایا۔ آپ کو ایک بہرے کان کی ضرورت تھی جو ان الزامات اور طعنوں کو سننے، آپ کو تمام تفریق کو نہ دیکھنے کے لئے اندھی آنکھوں اور ایک گونگا منہ کی ضرورت ہے۔
اگر آپ بیمار ہو جاؤ تو آپ کو ایران میں ایک افغان پناہ گزین کے طور پر آپ کو اپنے علاج کے تمام اخراجات آپ کو خود ادا کرنا ہوتے ہیں۔ اگر آپ ہسپتال جانے کی ضرورت ہے تو، آپ کو سب سے پہلے پیسے جمح کرنے پڑتے ہیں اور پھر وہ آپ کا علاج کرتے ہیں، اور اگر آپ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں تو، آپ مرنا پسند آپ کو مرنا پسند ہونا چایے۔
یہاں تک کہ اگر آپ کئی سال تک ایران میں رہے ہیں، آپ کو ہر سال اپنے دستاویزات کو بہت سارے پیسے ادا کرتے ہوئے تجدید کرنا پڑتا ہے اور اگر آپ ادا نہیں کرسکے، آپ کو افغانستان کو جلاوطن ہونے کا خطرہ شروع ہو جاتا ہے، بیشک آپ کتنے لمبے عرسے تک وہاں رہے۔ ان سبھی مسائل نے ہماری زندگیوں سے امن کو ختم کیا۔
میری ساری زندگی ایران میں پناہ گزین ہونے کی بدقسمتی تھی۔ شناخت کے بغیر ایک شخص کے طور پر شمار ہونے کی بدقسمتی تھی. بدقسمتی تھی جب مجھے ہمیشہ اجنبی طور پر سمجھا۔ مجھے نہیں پتہ ہم کتنے عرصے تک پناہ گزینوں کی طرح رہیں گے۔ ہم کئی سالوں تک پناہ گزینوں کے طور پر دردناک تجربے کیئے۔ یہ ایک ورثہ کی طرح لگتا ہے، جیسے میرے دادا سے میرے باپ اور میرے باپ سے میرے پے اور میں نہیں جانتی کہ اور کتنی نسلیں اس آزمائش سے گریزریں گی۔ ایک پناہ گزین کے طور پر رہنا ایسے ہے جیسے عمارت کو تباہ کرنے کے بعد دوبارہ تعمیر کرنا، اور کچھ پناہ گزین اس عمل کو بار بار دوہرہ رہے ہیں۔
پھر بھی میں نے ایران کو خالی ہاتھ نہیں چھوڑا۔ میں بہت سی چیزیں ساتھ لای۔ بھورے بالوں والی اپنی والدہ، کمزور آنکھوں والے اپنے والد کو اور اپنے بھائی کی فخر کی ٹوپی لایی۔ اور اب میں خوفناک آزمائشیوں سے گزرنے کے بعد میں یورپ میں ہوں، اب میں اور الگ الگ قسم کی مسائل کا سامنا کر رہی ہوں۔ میرا ملک جنگ کی آگ میں جل رہا ہے، امتیازی سلوک، آخری تناؤ اور جھوٹ سے پچھلے چالیس سالوں سے۔ میرے ملک کے بچوں کو زندہ دفن کیا گیا۔ میرے ملک کی مائیں اپنے مردہ بچوں کے لئے ماتم کر تی رہی۔ میرے ملک کے باپ دادا دشمن سے لڑتے لڑتے مر گئے۔ میرے ملک کے نوجوانوں اپنی ماؤں اور اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کو اپنی جان بچانے کے لۓ منتقل ہوگئے۔ ہماری مائیں اپنے گھروں کو چھوڑ ديئے جو یادوں سے بھرے ہوے تھے۔ انہوں نے ایک ایسے ملک میں جانے کا خواب دیکھا جہاں لوگ انسانی حقوق کا احترام کرتے ہوں، جہاں کوئی امتیازی سلوک نہ ہو، لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہاں یونان میں بھی، افغانیوں کو انسانی برادری کے ایک حصے کے طور پر حمایت نہیں دی جاتی۔ یورپی حکام کی نظر میں، صرف شام کی پناہ گزینوں کی پہلی شرح انسان ہیں۔ شامیوں نے اپنے ملک کو چھوڑا جیسے ہم نے جنگ کی وجہ سے چھوڑا، لہذا مجھے حیرت ہے کہ جنگ کے مختلف ممالک میں مختلف معنی ہیں۔ میرا یقین ہے جنگ جنگ ہوتی ہے ہمیشہ کے لئے۔
ہم بہت سے خطرات سے گزر چکے ہیں اور ہم نے ایک ایسے ملک میں پہنچنے کے لئے اپنی زندگی کو خطرہ میں ڈالا جہاں ہم حکومت اور معاشرے کے ذریعہ دونوں کی طرف سے انسانیت جیسے سلوک کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم نے انسانی حقوق کی شناخت کے بارے میں بہت سنا ہے۔ لیکن ہم ایک مختلف تصویر سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہم نے محسوس کیا کہ یورپیوں کی نظر میں ہم دوسری انسانی نسل ہیں۔ اور چونکہ ہم یورپی یونین کا حصہ نہیں ہیں ہم اپنے حقوق کا دعوا نہیں کر سکتے۔
میرے پاس ان کا نام اور مزید لکھنے کے لئے طاقت نہیں ہے…
Add comment