Sketch by Najmiah Hossaini

ہمارے خواب

تمہارا خواب کیا ہے؟ ہم نے یہ سوال یونان میں دس پناہ گزینوں سے پوچھا۔ ایک اچھا مستقبل بنانے کے لئے مرد اور خواتین نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا۔ زیادہ تراس سوال کا جواب خاموشی اور اداسی کے ساتھ ملا۔

میرے بھی اچھے خواب تھے۔ جب میرے خاندان نے یورپ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا، میں سوچ رہی تھی کہ میرے خواب سچ ہو جائیں گے۔ میرا خواب امن اور سلامتی میں رہنے کا ، اپنی تعلیم جاری رکھنے کا اور ایک شناخت حاصل کرنے کا تھا۔ میں امن پسند ممالک میں رہنے والے لوگوں کی طرح بغیر کسی خوف کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یورپی سیاست  افغان کو دوسرے جنگی ممالک کے پناہ گزینوں کی طرح نہیں دیکھنا چاہتا۔ کچھ یورپی یونین کے ممالک افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھیجنا شروع ہو گۓ ہيں۔ یہ کچھ ایسا ہے جو ہمیں اپنے مستقبل اور ہمارے خوابوں کے بارے میں ناامید کر رہا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارا کیا ہونے والا ہے۔ ہم ہر روز ایک غیر یقینی زندگی میں رہ رہے ہیں۔ زندگی بہت مشکل ہے اور ہم تھک چکے ہیں۔ ہم اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان ہیں۔ 

جب میں دیکھتی ہوں کہ میرے والدین بوڑہے ہوتے جا رہے ہیں اور سرمئی بال ان کے سر پر دن بہ دن زیادہ ہو رہے ہیں، میں ٹوٹی ہوی اور شکست محسوس کرتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا ہمیں سمجھ نہیں رہی۔ لیکن ابھی بھی میرا خواب ہے۔ میرا خواب امن پسند دنیا بغیر کسی باڈر کے۔

میرا خواب کیا ہے؟ اس وقت میرے لئے اس سوال کا سامنا کرنا مشکل ہے۔  ہمارے پاس اپنی زندگی میں خواب اور مخصوص منصوبوں تھے۔ ہم اپنا وطن چھوڑ کے اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے یورپ کی طرف منتقل ہوے۔ ہم امن میں زندگی گزارنے، تحفظ حاصل کرنے، تعلیم اور اپنی شناخت حاصل کرنے کی امید رکھتے تھے۔ ہم نے خواب دیکھا، ہم اہداف مقرر کیا، اور ہم اپنا بہتر مستقبل بنانے کے لیے اپنے ملک سے دور نکل آۓ۔ لیکن میں آپ کو اپنی خواہشات کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں جو ایک مرض میں بدل گیا، ہمارے عزائم کے بارے میں جو تکلیف میں بدل گئ۔ میں لامتناہی دردناک دنوں کے بارے میں لکھنا چاہتی ہوں جو ایک کے بعد ایک گزرتے اور آتے جا رہے ہيں جیساکہ ہم اپنے خوابوں سے دن بہ دن دور ہو رہے ہیں۔ دل ٹوٹ گیا، زندگی مشکل ہے، ماضی ہمیں پریشان کر رہا ہے۔ مستقبل واضح نہیں ہے.ہم ٹھیک ہونے دکھاوا کر کر کے تھک چوکے ہیں۔ کوئی بھی ہماری ناامیدی، ہمارے ٹوٹے ہوئے دل اور جذبات، ہماری آزادی اور ہماری محرومیت کا حال نہیں سمجھتا۔ میں اپنے مظلوم ہم وطنوں اور دنیا میں تمام پناہ گزینوں کے لئے خواہشات رکھتی ہوں، اور میں نے شیستو کیمپ میں بہت سے لوگوں سے پوچھا، ان کی کیا خواہشات ہیں۔

نجمه: میں اپنی نئی شناخت بنانا چاہتی ہوں، ایک ایسی شناخت جو مجھے اپنی زندگی میں آگے بھڑے اور اپنے خوابوں تک پہنچنے کا امکان دے گا۔ میں جنگ اور خون کے بغیر والی دنیا میں رہنا چاہتی ہوں، میں دنیا میں پناہ گزینوں اور کانٹے دار تار کے بغیر دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں بغیر کسی حدود کے آزاد دنیا کا خواہاں ہوں۔ 

30 سالہ خاتیر عمر: میں چاہتا ہوں کہ میرے خاندان اور میرے بچوں کے ساتھ کچھ بھی برا نہ ہو جیسا کہ ہم سربیا کی طرف جا رہے ہیں۔ 

47 سالہ نیسیمہ: میں اپنے بچوں کو اپنی منزلوں کی تلاش کروانا چاہتی ہوں، انکی زندگی میں خوشحالی اور کامیابی دیکھنا چاہتی ہوں۔ 

27 سالہ رومنی: خواہش ہے کہ ہم جلد از جلد جرمنی تک پہنچیں تاکہ ہم اپنی نئی زندگی کی شروات کریں۔

صدیقہ: میں اپنے شوہر کو جلدی دیکھنا چاہتی ہوں۔

30 سالہ زاری: میں ایک پرامن زندگی گزارنا چاہتا ہوں اور اس موجودہ صورتحال سے جلد ہی نکلنا چاہتا ہوں۔

29 سالہ فاطمہ: میں اپنے الگ ہوے خاندان کو ایک ساتھ اگھٹا دیکھنا چاہتی ہوں۔

16 سالہ سمیرا: میں ہمیشہ پرامن زندگی گزارنا اور اپنے خاندان کو خوشگوار دیکھنا چاہتی ہوں۔ 

16 سالہ فرنجیز: میں اتنا امیر ہونا چاہتا ہوں کہ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہ پڑے۔ 

25 سالہ نسیما: میری خواہش ہے کہ میری بیمار بیٹی جلد صحت یاب ہوجاۓ اور میں اسے صحت مند اور دوبارہ خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔

11 سالہ یگنہ: میں چاہتی ہوں کہ سرحدوں کو تمام پناہ گزینوں کے لئے دوبارہ کھولا جاۓ۔ 

14 سالہ روح اولا: میں اپنے خاندان کو دوبارہ دیکھنا چاہتا ہوں۔

21 سالہ حامید: ایک مشہور والی بال کھلاڑی بننا چاہتا ہوں۔

محمد: میں چاہتا ہوں کہ میرے ملک میں امن اور سلامتی آئے اور تاکہ ایک دن ہم وہاں واپس جا سکیں ہیں۔ 

18 سالہ محمد رضا: میں ایک مشہور فٹ بال کھلاڑی بننا چاہتا ہوں اور خاندان کو پھر سے ایک ساتھ دیکھنا چاہتا ہوں۔

یہاں جمع ہوئے تمام مہاجرین، باہمی امتیاز رکھتے ہیں، چاہے وہ مرد یا عورت، جوان یا بوڑھا ہو۔ وہ یہ مشکل دن ختم ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں، اور وہ امید کرتے ہیں کہ وہ ایک محفوظ اور پرامن ملک میں نئی ​​زندگی شروع کریں گے۔

Sketch by Najmiah Hossaini

Add comment