ملاکاسا میں پناہ گزینوں کی تعلیم

زندگی میں، لوگ بہت سارے مراحل اور حالات سے گزرتے ہیں، ان میں سے اسکول  کا سفر سب سے اہم ہوتا ہے۔ اسکول علم کا دروازہ ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں سے ہم برے سے اچھے کی شناخت کرنا سیکھتے ہیں، جہاں ہم حکمت کی طرف اڑان بھرتے ہیں۔  ہمارے اخلاقیات علم کی رہنمائی کے تحت تشکیل دیئے جاتے ہیں اور ہمارے دن مثبت عادات سے معمور ہوتے ہیں۔ 

ہمیں ان بچوں اور نوجونوں کی مدد کرنی چاہئے جو اپنی تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔ یہی کام یونان کی وزارت تعلیم 2015 سے کر رہی ہے، جب مشرق وسطی سے لوگ بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ آنے لگے۔ اس سے بہت سارے پناہ گزینوں اور مہاجرین کو اپنی تعلیم جاری رکھنے اور خوابوں پر عمل پیرا ہونے میں مدد حاصل ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے مشرقی اتیکا کے ایک قصبے، ملاکاسا میں کنڈرگارڈن اور ہائی اسکول کے اساتذہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا، جہاں ملک کے بہت سارے پناہگزین کیمپوں میں سے ایک کیمپ واقع ہے۔ 

“تعلیم کسی بھی غیر مقامی فرد کے لیے مقامی کمیونٹی میں شامل ہونے کا اہم طریقہ ہے، کیونکہ، اس حقیقت سے قطع نظر کہ آپ یونانی نہیں ہیں، پر آپ یونان میں ہی رہتے ہیں،”مسٹر کوستاس کلیمیس کہتے ہیں، ملاکاسا کیمپ میں پناہ گزینوں کے تعلیمی کوآرڈینیٹر، جو وہاں دو سال سے کام کر رہے ہیں۔

اس وقت چار سے چھ سال تک کے پناہ گزین بچوں کے لئے سرکاری کنڈرگارڈن  اسکول، کیمپ کے اندر تین مختلف کنٹینرز میں چلائے جارہے ہیں، جبکہ سولیڈارٹی ناؤ اور آئی او ایم نے بھی نوجوانوں اور بڑوں کی مدد کے لئے غیر سرکاری تعلیمی پروگرام تیار کیے ہیں۔ 

جہاں تک ابتدائی اور ثانوی تعلیم کا تعلق ہے، کیمپ میں مقیم پناہ گزین بچوں اور نوعمر نوجوانوں کو اولنس، کپندریٹی، اور یورپاس کے ای پی ایل کے اسکولوں میں داخل کیا گیا ہے۔ مسٹر کلیمیس کے مطابق، اس وقت کنڈرگارڈن سے ای پی ایل تک 452 پناہ گزین طلباء ہیں، جو ملاکاسا کے زیادہ تر علاقوں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ 

تمام کورسز یونانی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں اور، یقین کریں، کسی غیر ملک میں غیر ملکی زبان سیکھنا کچھ اور آسان ہے۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ اسکولوں میں باقاعدہ ترجمانوں کی کمی ہے۔ ملاکاسا کے کنڈرگارڈن میں، مثال کے طور پر، اساتذہ عام یونانی پروگرام کی پیروی نہیں کرتے ہیں کیونکہ وہ بچوں اور ان کے والدین کے ساتھ بات چیت نہیں کرسکتے۔ 

ملاکاسا کے کیمپ میں کنڈرگارٹن ٹیچر مسز انا فراتزی کا کہنا ہے کہ “یہاں ترجمان بہت کم ہیں، اور عام طور پر ان کی ضرورت بیوروکریٹک امور اور ضروری حالات میں درکار ہوتی ہے۔ در حقیقت ان کے پاس بچوں کی مدد کرنے کے لئے وقت نہیں ہے۔ ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں، یعنی کہ ہم انہیں کچھ بنیادی یونانی الفاظ سکھاتے ہیں تاکہ ہم ان سے بات چیت کرسکیں۔ ہم مخصوص عنوانات پر مزید تفصیل نہیں دے پاتے۔

ہائی اسکول میں جانے والے پناہ گزین طلباء کو بھی زبان کی رکاوٹ کا سامنا ہے۔ مسز لوکیا استیفو، اولون ہائی اسکول آف آلووناس کی ماہر فلولوجسٹ، اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے مختلف طریقہ اختیار کرتی ہیں: “جب بھی مجھے اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو، میں ہمیشہ اس بات کو یقینی بناتی ہوں کہ کلاس میں کم از کم ایک ایسا بچہ موجود ہو جو کورس کے کچھ خاص حصوں کا اپنی مادری زبان میں ترجمہ کرسکے۔  میں انگریزی بولتی ہوں، تو میں یہ کرلیتی ہوں، لیکن میں ذیادہ انگریزی بولنا پسند نہیں کرتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ اپنے آپ کو یونانی زبان سے واقف کریں کیونکہ یہ ان کے لئے اہم ہے۔ ہمارے اسکول میں کچھ پناہ گزین بچوں کا یہ دوسرا یا تیسرا سال ہے جو یونانی زبان بولتے ہیں اور خوش قسمتی سے فارسی ان کی عام زبان ہے۔

 دو سال قبل اولوناس کے اول ہائی اسکول میں دوپہر کی خصوصی کلاس تھی جو “عام طور پر” دوپہر 2 بجے سے شام 6 بجے کے درمیان ہوتی تھی۔ یہ پناہگزینوں کی تعلیم کی استقبالیہ سہولت تھی (RFRE – DYEP یونانی میں)۔ مسسز نانتیا تسیسن، فلولوجسٹ اور اسکول کی ڈائریکٹر، کا کہنا ہے کہ “عام طور پر، اگر وہاں اتنا تدریسی عملہ ہو تو۔ نہیں تو، وہاں دستیاب عملے کے ساتھ دوپہر 2 بجے سے شام 4 بجے تک کلاسس ہوتی ہیں۔ 

مسز فراتزی کے لیے یہ مسئلہ یہ ہے کہ “وہ لوگ یہاں مستقل طور پر نہیں رہتے۔لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ زیادہ لوگ بھی آسکتے ہیں۔ وہاں ایسے بچےبھی ہیں جو دو ہفتوں سے آنا شروع کرتے ہیں اور پھر انہیں جانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ، ایسے بچے بھی ہیں جو کیمپ میں رہتے ہیں پر باقاعدگی سے کلاس میں شرکت نہیں کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دن کے لئے آئیں اور تین دن نہ آئیں۔ وہ اسے اپنے باقائدہ اسکول کے طرح نہیں دیکھتے۔ صرف چند ہی ایسے والدین ہیں جو اپنے بچوں کو ہر روز اسکول بھیجتے ہیں۔ اس سے ان کے لئے مخصوص چیزیں سیکھنے میں مزید مشکل پیدا ہوتی ہیں۔ بہت سے والدین اسکول کو اپنے بچوں کے وقت گزارنے کی جگہ کے طور پر دیکھتے ہیں، جیساکہ ان کے گھر میں بہت سے بچے ہوتے ہیں۔ 

اگرچہ بہت سے پناہگزین بچے یونان میں ہی رہنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے والدین ان کے کاغذات کے منتظر ہیں تاکہ وہ یورپ کے دوسرے ملک جا سکیں۔ مسز تسنی نے تصدیق کی ہے کہ: “اسکول میں ان کی حاضری اتنی منظم نہیں ہے۔  ان میں سے بہت سے لوگ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چلے گئے، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کیسے چلے جاتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ ملک چھوڑ کر دوسری منزلوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، یہاں تین سال سے رہنے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہے۔

مسز استیفانو کے لئے یہ ایک عام سی بات ہے کیونکہ “والدین کے پاس وژن ہوتا ہے لیکن ہمارے اہداف، مقاصد اور خواہشات مختلف ہیں۔ بچوں کو ایک ایسا ماحول مل گیا ہے جس میں وہ اپنی زندگی اپنے تناظر میں گذارتے ہیں۔ ہم دونوں فریقوں کو سمجھتے ہیں۔ بہرحال، میں جو ذاتی طور پر دیکھ رہی ہوں کہ بچوں کو ایک معمول کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے، چاہے اس معمول کی کوئی ڈیڈ لائن ہی کیوں نہ ہو، چاہے اس معمول کی میعاد کسی ایک وقت پر جا کر ختم ہی کیوں نہ ہوجائے، اور  اسی چیز کی انہیں ضرورت ہے۔انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پیر اپنی سرزمین پر نہیں بلکہ یونان کی ٹھوس زمین پر کھڑے ہیں۔”

یونانی معاشرے میں پناہ گزینوں کے انضمام کی سطح کا اندازہ کرنے کے لیے شاید دو یا تین سال کا وقت کافی نہ ہوگا ۔تاہم، اگر اسکول سماج کی ایک چھوٹی تصویر ہے، تو ہم پہلے ہی پناہ گزینوں کا دوسری ثقافت کو قبول کرنے کی بات کر سکتے ہیں۔ 

مسز استیفانو کا کہنا ہے کہ آپ بھی گواہی دے سکتے ہیں کہ وقفے کے دوران: “وہ سب صحن میں اکٹھے رہتے ہیں اور والی بال کھیلتے ہیں، مثال کے طور پر، وہ اکیلے نہیں کھیلتے۔ یہ سماجی ہونے کی طرف پہلا قدم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ قدرتی طور پر کارفرما ہیں، کیوں کہ وہ اب ایک ایسے عمر میں ہیں جس میں وہ محبت میں پڑ جاتے ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے اور بچوں کے مابین سموہن کا آغاز ہوسکتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ یہاں ہی رہیں، کہ ان پر بھی پیوند کاری کی جائے، جیساکہ ہم پر کی گئی اور جو درخت ہم مل کر لگائیں گے وہ خوبصورت ہوں گے پھلوں کے ساتھ۔

یہ درصت ہے، کہ تعلیم ہمیں اپنے آس پاس کی دنیا کا علم فراہم کرتی ہے اور اسے کسی اور بہتر چیز میں تبدیل کرتی ہے۔ اس سے ہماری زندگی میں نقطہ نظر کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔ اس سے ہمیں زندگی کی چیزوں پر رائے قائم کرنے اور نقطہ نظر رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ تعلیم سب کے لئے بہت اہم وسیلہ ہے، لہذا اپنی پوری کوشش کریں اور اپنے مقاصد تک پہنچیں۔ 

*یہ مضمون “پناہ گزین پرندے” اخبار کے شمارہ نمبر 11 میں شائع ہوا ہے، جسے 29 دسمبر 2018 کو اخبار “افیمریدا تون سنتاکتن” (ایڈیٹرز کے اخبار) کے ساتھ ملحقہ کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔

محمد نسیم حیدری

Add comment